Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

پائیدار ٹیکس نظام کے لیے وفاق اور صوبوں میں ایک ہی ٹیکس اتھارٹی بنائی جائے، ورلڈ بینک

Published

on

عالمی بینک نے پاکستان میں پائیدار ٹیکس نظام کے لئے کنسولیڈیٹڈ ٹیکس اتھارٹی کے قیام کی تجویز دے دی۔عالمی بینک کاکہنا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتوں پر مشتمل واحد انتظامیہ کا قیام تعمیل کے اخراجات کو آسان اور ٹیکس کی مؤثر ہم آہنگی کو فروغ دے گا۔

ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ اتھارٹی کی جانب سے جمع کیے گئے ریونیو کی 18ویں ترمیم کے مطابق تقسیم ہوتی رہے گی،18ویں ترمیم کے تحت مالیاتی انتظامات کا پبلک فنانس کے بنیادی اصولوں کے ساتھ مطابقت کے لیے جائزہ لیا جانا چاہیے۔

عالمی بینک کی رائے ہے کہ صوبوں کو ان کی ذمہ داریوں اور اخراجات کی ضروریات کے مطابق وسائل کی فراہمی ہوتی رہنی چاہیے،وفاقی منتقلی اور ٹیکس کی ذمہ داریوں کی تفویض کا موجودہ نظام اس مقصد کو حاصل نہیں کرتا ہے۔

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ  پاکستان کا مالیاتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے، جس سے مالیاتی استحکام کو خطرات لاحق ہیں، ٹیکس وصولی کی کم شرح مالیاتی پائیداری اور ترجیحی سرمایہ کاری کے لیے دستیاب وسائل کو محدود کرتی ہے۔

ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں 114 ملین لوگ ملازمت کرتے ہیں لیکن ذاتی انکم ٹیکس کے لیے  8 ملین سے کم لوگ رجسٹرڈ ہیں،صوبائی محصولات کی کل وصولی جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے کے مطابق ٹیکس کی شرح کا موجودہ ڈھانچہ حکومت کے لیے ناکافی محصولات کا باعث بنا ہے، ٹیکس کی کم شرح رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کو زیادہ منافع بخش بناتی ہے۔

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ ناکافی زمینی ٹیکس ایکویٹی کی قیمت پر زیادہ قیمتی جائیدادوں کے مالکان کو فائدہ پہنچاتی ہے۔شہری اراضی پر ٹیکس لگانے کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے نمایاں صلاحیت موجود ہے۔

عالمی بینک کے مطابق جی ڈی پی کا تقریباً 22.5 فیصد زراعت پر مشتمل ہونے کے باوجود زرعی انکم ٹیکس کی آمدنی بہت کم رہتی ہے، 90 فیصد سے زیادہ کسانوں پر ان کی زمینیں 12/½ ایکڑ چھوٹ کی حد سے کم ہونے کی وجہ سے ٹیکس نہیں لگتا۔

ورلڈ بینک کا خیال ہے کہ ٹیکس انتظامیہ پیچیدہ ہے اور ریونیو کو متحرک کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ ہے۔ ٹیکس کا انتظام فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور 12 صوبائی ریونیو اداروں ( ہر صوبے کے تین) کے زیر انتظام ہے۔ ملے جلے دائرہ اختیار، متعدد ریگولیٹری اور ٹیکس کے تقاضے پاکستان کے ٹیکس نظام کو مزید مشکل بنا دیتے ہیں۔

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں اور شرحوں کی کثرت، اور ملے جلے دائرہ اختیار تعمیل اور انتظامی اخراجات میں اضافہ کرتے ہیں،موجودہ بکھرے ہوئے ڈھانچے سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں کو کم کرنے اور پالیسی اصلاحات کو فوری آگے بڑھایا جانا چاہیے۔

ورلڈ بینک نے تجویز دی کہ  ایک ہی ٹیکس مارکیٹ بنانے، اخراجات کو کم کرنے اور ڈیجیٹائزیشن کی جاری کوششوں کو تیز کیا جانا چاہیے،اور ٹیکس دہندگان اور ریونیو حکام کے درمیان مطلوبہ تعاملات کی تعداد کو کم کرنے کی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔

ورلڈ بینک کی تجویز ہے کہ جی ڈی پی کے تقریباً 0.1 فیصد کے مساوی محصولات رجعت پسند کارپوریٹ ٹیکس چھوٹ کو بند کر کے حاصل کیے جا سکتے ہیں،تنخواہ دار اور غیر تنخواہ دار افراد کے درمیان ٹیکس کے شیڈول کو ہم آہنگ کر کے جی ڈی پی کا 0.1 فیصد بڑھایا جا سکتا ہے۔

ورلڈ بینک کی رائے ہے کہ سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی تمام برانڈز کے لیے یکساں شرح اور خودکار افراط زر کی ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ لاگو کی جا سکتی ہے،مستقبل میں دیگر اشیا پر اضافی ایکسائز پر غور کیا جا سکتا ہے جو ماحولیاتی نقصان یا صحت کے منفی نتائج سے وابستہ ہیں۔

عالمی بینک کا کہنا ہے کہ  ٹیکس میں چھوٹ اور رعایتوں کے نتیجے میں مالی سال 21 میں جی ڈی پی کے 2.7 فیصد ٹیکس اخراجات ہوئے۔پیٹرولیم سیکٹر میں 280 ارب روپے کی چھوٹ اور دیگررعایتی شرحیں بند ہونی چاہئیں۔

ورلڈ بینک نے کئی طرح کی ٹیکس چھوٹ بند کرنے کا بھی کہا ہے، بینک کے مطابق بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے لیے مشینری کی درآمد پر 100 ارب روپے کی چھوٹ،دواسازی، توانائی اور مخصوص اشیائے خوردونوش کے لیے درآمد پر 40 ارب روپے کی چھوٹ،مقامی سپلائی پر 100 ارب روپے اور ڈیری وغیرہ سے چھوٹ بند کر کے 100 ارب روپے کی آمدنی کی بچت ہو سکتی ہے۔

ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ غریبوں کو سماجی تحفظ کی مداخلتوں کے ذریعے قیمتوں کے اثرات سے محفوظ رکھا جانا چاہیے۔بے نظیر انکم سپورٹ جیسے منصوبے غریب گھرانوں کا تخفظ کر سکتے ہیں،پاکستان کی آمدنی کی صلاحیت اس کی معیشت کے موجودہ ڈھانچے کی وجہ سے محدود ہے۔

ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان کمٹمنٹ ٹو ایکویٹی (سی ای کیو) اسسمنٹ کے مطابق پاکستان میں غریب زیادہ ٹیکس دیتے ہیں،پاکستان کی غریب ترین آبادی کا 10 فیصد امیر ترین 10 فیصد کے مقابلے میں ٹیکسوں میں آمدنی کا زیادہ حصہ ادا کرتا ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین