پاکستان
بھٹو کیس کی آرڈر شیٹ سے لگتا ہے یہ فوجداری نہیں سول کیس تھا، چیف جسٹس
سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کیخلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت،عدالتی معاون سابق جج سپریم کورٹ منظور احمد ملک نے کہا کہ بھٹو کی سزا غیر آئینی و غیر قانونی ہے،سزا دینے میں صرف بدنیتی اور بددیانتی ہی نہیں اس سے بھی بڑھ کر تھا،بھٹو کیس کا ٹرائل اور سپریم کورٹ کے فیصلے تک درد ناک، افسوسناک اور چونکا دینے والے حقائق ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ بھٹو کیس کی آرڈر شیٹ سے لگتا ہے یہ فوجداری نہیں بلکہ سول کیس تھا۔
سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کیخلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران بلاول بھٹو زرداری بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
عدالتی معاون منظور ملک نے دلائل کا آغاز کیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ آپ کو کرمنل پہلو پر سننا چاہتے ہیں۔
منظور ملک نے کہا گزارش ہے مجھے ایسے سنا جائے جیسے آپ 1978میں اپیل سن رہے ہیں،مجھے سننے کے بعد فیصلہ آپ کو ہی کرنا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ کو ایسے میجر پوائنٹس پر سننا چاہیں گے جو ضمیر جھنجھوڑ دینے والے ہوں۔
منظور ملک نے کہاکہ ذوالفقار علی بھٹو مقدمے میں ملزم نامزد نہیں تھے،کیس کا ریکارڈ 8اگست 1977کو دوبارہ تفتیش کیلئے لیا گیا،دوبارہ تحقیقات کیلئے مجسٹریٹ سے کوئی تحریری اجازت نہیں لی گئی،دستاویزات کے مطابق کیس کا ریکارڈ بعد میں لیاگیا، تفتیش پہلے ہی دوبارہ شروع ہو چکی تھی،سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو اور شریک ملزم کی سزا برقرار رکھی تھی،احمد رضا قصوری کی درخواست پر ہی مقدمہ درج کیا گیا تھا،24 ستمبر 1977 کو پہلی سماعت ہوئی، اور اگلی سماعت پر شواہد طلب کر لیے گئے۔
جس پر چیف جسٹس نےکہا کیا ذوالفقار علی بھٹو کے وکیل پیش ہوئے تھے؟
عدالتی معاون منظور ملک نے بتایا کہ پہلی سماعت تھی کوئی وکیل پیش نہیں ہوا،بھٹو کیس میں فرد جرم بھی ملزمان پر الگ الگ عائد کی گئیں،اس اصول کو بھی نظرانداز کیا گیا کہ ملزمان ایک سے زیادہ ہوں تو فرد جرم ایک ہو گی،پہلے ہی دن ذہن بنا لیا گیا کہ بس ملزم آگیا تو ٹرائل ہی کرنا ہے،پہلے ہی دن کہہ دیا گیا شہادتیں طلب کرتے ہیں،سوال یہ بھی ہے اس وقت کے چیف جسٹس صاحب کو یہ کیس سننا چاہیے تھا؟جب وہ لکھ چکے تھے، وہ ناراض ہو گئے وہ پارٹی بن چکے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان بولے کہ بھٹو پر جو پہلا چارج لگا اس کو زرا دیکھیں،اس چارج میں قتل کی سازش کے عناصر تو ڈالتے،کچھ تو بتائیں پرائم منسٹر ہاؤس میں یہ سازش ہوئی کہاں ہوئی؟میں تو حیران ہوں،اس کیس میں تو قتل کی بنیاد سازش کہی گئی ہے،کیا اس وقت وزیراعظم بھٹو سب کو بلا بلا کر کہہ رہے تھے اس کو قتل کردو؟کیا بھٹو ساری دنیا کو بتاتے پھر رہے تھے؟جو گواہ کا بیان آپ نے پڑھا اسی پر سزا ہوئی؟
سابق جج منظور ملک نے کہا تو اور کس بیان پر سزا ہوئی؟ بھٹو صاحب کیخلاف کوئی شواہد نہیں ہیں،کوئی بھی سنجیدہ بندہ بھٹو کیخلاف بیانات و شواہد کو مان نہیں سکتا،ذوالفقار بھٹو کیخلاف مسعود ملک صرف ایک گواہ تھا،مسعود ملک نے اپنا بیان بڑے اچھے طریقے سے ریکارڈ کرایا،سپریم کورٹ نے بھٹو کیس میں حقائق کو نظرانداز کیا،مزید تفصیلی دلائل کل دونگا۔
سماعت کے دوران احمد رضا قصوری روسٹرم پر آئے اور کہا کہ سپریم کورٹ کے سابق ججز کیخلاف منفی باتیں ہورہی ہیں،سابق ججز کے دفاع کیلئے انکے لواحقین کو نوٹس کرنا چاہیے، جب ہم 20 سال کے تھے تب وہ سپریم کورٹ کے ججز تھے اور انکے خلاف آج باتیں ہورہی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا قصوری صاحب کیس لائیو چل رہا ہے جو فریق بننا چاہے وہ عدالت آسکتا ہے، اس عدالت میں ججز کا ٹرائل نہیں ہورہا بس حقائق دیکھ رہے ہیں۔
جسٹس سردار طارق مسعود بولے کہ جب آپکی باری آئے گی آپ سابق ججز کا دفاع کر لیجیے گا۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ کل بھی عدالتی معاون سابق جج منظور احمد ملک دلائل جاری رکھیں گے