Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

مستقبل کا سیاسی منظر،سرپرائز مل سکتے ہیں

Published

on

ایک ہفتے کے دوران ملکی سیاست میں بہت سے واقعات رونما ہوئے، یہ واقعات اس قدر تیزرفتار اور شدید نوعیت کے تھے کہ اگلے کئی برس تکان کے اثرات نظر آئیں گے۔ عدالت کے حوالے سے معاملات بھی بہت حد تک واضح ہو چکے ہیں،اب سیاست میں آنے والے دنوں میں فیصلے ہونا باقی ہیں،تیسری اہم بات مستقبل کے امکانات ہیں،یہ امکانات تحریک انصاف، فوجی قیادت اورحکومت کے فیصلوں اور اقدامات سے متعلق ہیں۔
گزشتہ ایک ہفتے کے واقعات سے تین باتیں واضح ہو گئی ہیں ،پہلی، حکومت رٹ برقرار رکھنے میں ناکام رہی،رانا ثناء اللہ اور حکومت جو چاہے دعوے کرے لیکن حکومت کی رٹ کہیں نظر نہیں آئی۔

چند سو لوگوں کے جتھوں نے انتشار پھیلایا اور نجی و سرکاری املاک کو آگ لگائی۔ بہت سی ریڈ لائنز کو عبورکیا،لیکن حکومت اوراس کی رٹ کہیں نظرنہیں آئی۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت اب یہ کہے کہ تحمل کا مظاہرہ کیا گیا،ہم نے ایسے مناظر دیکھے جو کبھی نمودار ہی نہیں ہونے چاہئے تھے،حکومت رٹ قائم کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آئی ہے۔۔
دوسری اہم بات،سکیورٹی اداروں کی تحمل کے نام پر بے بسی، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر دکھائی گئی ویڈیوز ہیں میں سکیورٹی ادارے اپنی املاک، تنصیبات اور خود پرہونے والے حملوں کے بعد اس قدر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیئے کہ ان کی بے بسی کا تاثر بنتا نظر آیا،آخراتنا صبروتحمل اوربرداشت کا مظاہرہ کیوں کیا گیا؟

تیسری بات، کسی اور نے ایسا کیا ہوتا تو صبر کا ایسا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا؟یہ ایک بڑا سوال ہےاورکیا پاکستان تحریک انصاف کی جگہ کوئی اور جماعت ہوتی تو کیا اتنا صبر و تحمل ہمیں نظر آتا؟
سب سے تشویشناک پہلویہ ہے کہ سکیورٹی تنصیبات اوراملاک پرحملوں کے دوران تحمل کی جو مثال قائم کی گئی، اس کے بعد مستقبل کا منظرنامہ کیا ہوگا؟ کیا کسی اور جماعت کے جتھوں کو بھی یہ رعایت دی جائے گی؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اب سوال تو اٹھیں گے۔
ان واقعات کا ایک سنگین ترین سبق، جو عام شہری نے سیکھا وہ یہ ہے کہ مٹھی بھر شرپسند عناصر جب چاہیں کسی بھی شہر کا امن تباہ کر سکتے ہیں،راہ چلتے شہریوں پر حملے کر سکتے ہیں،خونریزی کر سکتے ہیں، کسی بھی نجی ملکیت کو آگ لگا کر، اندرموجود افراد کو زندہ جلاسکتے ہیں لیکن ریاست اورحکومت حرکت میں نہیں آئے گی ،کیونکہ ریاست ان دنوں صبر و برداشت کے نئے سبق پڑھ رہی ہے۔

اس سے بھی زیادہ دل دہلا دینے والی بات یہ ہے کہ نظام عدل اب ثبوتوں، شواہد اور زمینی حقائق کو خاطر میں نہیں لاتا،عدل کے ذمہ دار اب کیمپوں میں تقسیم ہیں، ایک بڑا حصہ واضح طور پر عمران خان کے ساتھ کھڑا ہے،ثبوت کی پروا ہے نہ پراسیکیوشن کی دلیلوں سے غرض، اب تو عدالتوں میں ملزم کے طور پر پیش ہوتے شخص کو خوش آمدید کہنے کا نیا چلن ہے،سرسری سماعت کے بعد سنگین الزامات کے مقدمات میں ضمانت دی جاتی ہے اور ساتھ ہی نیکمستقبل کی خواہشات کا اظہار کیا جاتا ہے۔

سیاست دان مقدمات میں پیش ہوتے آئے ہیں،سیاست دانوں کی پیشیاں تو ایوب دور سے ہی شروع ہو گئی تھیں،اس طرح خیر سگالی جذبات کا کھلم کھلا اظہار بھری عدالتوں میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ عدالتوں میں اس قدر پسندوناپسند اورکھلی عصبیت عام شہری کو بہت کچھ سوچنے پرمجبور کررہی ہے،یہاں تو سائل برسوں مقدمے کی شنوائی کے لیے دھکے کھاتے ہیں اورعدالتوں کے پاس جج ہوتے ہیں نہ وقت، لیکن ایک شخص کے لیے وقت بھی ہے اور جج انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب وہ آئے اور اسے انصاف مہیا کرسکیں۔

اب دعوے کئے جا رہے ہیں کہ سکیورٹی تنصیبات اور املاک پر حملوں کے منصوبہ سازوں، اکسانے والوں اور اس پر عمل کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا اور رعایت نہیں دی جائےگی، سوال یہ اٹھتا ہے کہ انصاف کا معیار یہی رہا تو کیا کسی ملزم اور مجرم کو سزا دلوائی جا سکے گی؟ حکومت کے لیے اہم ترین چیلنج یہ ہے کہ وہ عدالتوں کو ان کی حدود یاد دلائے اور ان حدود سے تجاوز کی اجازت نہ دے، اب تک تو حکومت نے یہ ہمت نہیں دکھائی، پارلیمنٹ میں تو بہت تقریریں ہوئیں لیکن عدالت میں سماعتوں کے دوران حکومت کے نمائندے اور آئینی عہدیدار ہمت نہیں جٹا پائے۔

یہ ملک کی عدالتی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے کہ سرسری سماعتوں کے ساتھ یکے بعد دیگرے نو مقدمات میں ضمانتیں دینے کے ساتھ یہ حکم بھی جاری ہوا کہ اس کے سوا بھی کوئی مقدمہ ہو تو گرفتاری نہ کی جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے بارے میں عمران خان کی جو آڈیو لیک ہوئی ہے، مسرت چیمہ کے ساتھ، عمران خان کہہ رہے ہیں کہ یہ جج تو ملے ہوئے ہیں اور وہ اپنے فیصلوں کے حوالے سے کہیں اورسے ہدایات لیتے ہیں،اس کے باوجود بھی اسلام آباد ہائیکورٹ سے ان کو اتنا بڑا ریلیف مل جاتا ہے، یہ سب حیران کن ہے۔

اس میں دورائے نہیں کہ عمران خان کو جس طرح گرفتار کیا گیا وہ غلط طریقہ تھا، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ جس قدر ریلیف اداروں سے اب تک عمران خان کو ملا ہے شاید ہی کسی سیاستدان کو ملا ہو۔
مستقبل کے امکانات کیا ہیں؟ آنے والے دن کئی سرپرائز لا سکتے ہیں۔ سرپرائز کے دلدادہ یاد رکھیں کہ اب ردعمل کے پیمانے بدل گئے ہیں، کبھی ریڈلائن تصور ہونے والے مقامات اور اقدامات اب ریڈ لائن تصور نہیں ہو رہے۔

اب ردعمل کے نئے پیمانے اور معیار دیکھ کر کسی اقدام کا فیصلہ کرنا پڑے گا،اگر گرفتاری مقصود ہے تو ردعمل کے نئے پیمانے سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوگی، اس کے ساتھ ہی حکومتی اور ریاستی عہدیداروں کے بیانات مدنظر رکھے جائیں تو ردعمل کے معیار اور پیمانہ بھی دوبارہ جانچا جائے گا۔

جہاں تک بات ہے ردعمل کے پیمانے کی کی، تو عمران خان اس کی توثیق کر چکے ہیں، اور ان کا یہ بیان قابل توجہ ہے کہ اگر مستقبل میں مجھے گرفتار کرنے کی کوشش ہوئی تو اس سے بھی زیادہ سخت ردعمل آسکتا ہے، عمران خان دراصل وارننگ دے رہے ہیں کہ اب تک جو کچھ ہوا کم تھا، اس سے بھی آگے امکانات اور بھی ہیں۔

حکومت اور ریاست بھی ردعمل کو محدود کرنے اور کسی بھی احتجاج کے لیے ریڈلائن طے کرنے کی کوشش میں ہے، اس کے لیے بلوائیوں کی تصاویر شائع کر دی گئی ہیں،اشتہاری قرار دے کر اطلاع دینے والوں کے لیے دو لاکھ روپے انعام مقرر کیا گیا ہے۔ دیکھنا ہو گا اب کون کس کی مقررہ حدود کو تسلیم کرتا ہے۔

سب سے بڑا چیلنج نظام عدل کو آئین و قانون کے طے کردہ رستے پر واپس لانا ہے،نظام عدل کے ذمہ داروں کو یاد دلانا ہوگا کہ وہ کسی ایک جماعت یا شخصیت کو انصاف دینے کے لیے مامور نہیں کئے گئے، عدل کا دہرا معیار ختم کرنا ہوگا، اگر عدل صحیح معنوں میں ہوتا نظر نہ آیا تو ریاست کو من مرضی کے مطابق جھکانے کی خواہش رکھنے والے، جتھوں اور بلوائیوں کی مدد سے ریاست کو گھٹنوں کے بل لے آئیں گے۔

ثنا مرزا 2003ء سے میڈیا خصوصا صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں ایک دہائی سے زیادہ نامور ادارے جیو جنگ گروپ کاحصہ ہونےکے علاوہ وآئس آف امریکہ(واشنگٹن)، 92نیوز، 24نیوز، ریڈیو پاکستان اور متعدد ایف ایم ریڈیوز میں خدما ت انجام دے چکی ہیں

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین