Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

ہم بے کار آبادی پیدا کر رہے ہیں

Published

on

اس وقت ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ زرعی اراضی کو غیرزرعی مقاصد بالخصوص رئیل اسٹیٹ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور زیرکاشت زمینوں کو رہائشی سکیموں میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ اس رجحان سے ملک کو ایک مستقل زرعی بحران سے دو چار ہونے کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس وجہ پاکستان کے لیے خود اپنی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے اثرات گندم کی قلت کے علاوہ پھلوں اور دالوں سمیت ضروری  اشیائے خوردونوش کی درآمد کی شکل میں پہلے ہی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

اگر ہم اس حوالے سے پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو زرعی اراضی کی دستیابی جو کہ 60 اور 70 کی دہائی میں کثرت سے تھی اس میں بھی خطرناک حد تک کمی آئی ہے۔ اس وجہ سے لوگ زراعت کا کام چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ شہری پھیلاؤ میں اضافہ زرعی اراضی کو مزید دباؤ کا شکار بنارہا ہے۔ زرعی اراضی کا غیرزرعی مقاصد کے لیے استعمال تیزی سے پھیلتا جارہا ہے جو کہ ملک کو ایک اور بڑے بحران کی طرف لے جا رہا ہے اور پھر جتنی ہم لوگ کالونیاں کاٹ رہے ہیں ، یہ ساری کی ساری زرعی زمین پر بنائی جارہی ہیں اور المیہ یہ ہے کہ کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں ہے۔

دنیا میں آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ عمودی سطح ( یعنی قلیت مسلم ) کی طرف جاتی ہے، جبکہ ہم Horizontal جارہے ہیں، یعنی ڈیمانڈ زیادہ ہے اور زمین کم ہوتی جارہی ہے۔ اور یہ کالونیاں بنانے والے اربوں روپے کما رہے ہیں، حالانکہ حکومت کو چاہیے تھا کہ اگر کوئی 1000 ایکڑ کی کالونی بنارہا ہے تو وہ چولستان یا کہیں اور اتنی ہی بنجر زمین کو زرخیز زمین یا قابل استعمال زمین میں بدلے۔ مطلب جتنی زمین استعمال ہوئی اتنی ہی زمین کے لیے پانی، قابل کاشت اور دیگر سہولیات پیدا کر کے دی جائیں تا کہ مجموعی طور پر ملک کو نقصان کا اندیشہ نہ ہو تاکہ بیلنس آف لیونگ سٹینڈرڈ برقرار ہے۔

خیر یہ بات تو طے شدہ ہے کہ اگر ایک بار اراضی کے استعمال میں تبدیلی آجائے تو اسے اصل مقصد کی طرف واپس لانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں بے دریغ شہری پھیلا 77,000 ہیکڑ اراضی کو ہڑپ کرچکا ہے جس میں زیادہ تر زرخیز زرعی اراضی شامل تھی۔

اس کے علاوہ پاکستان میں گزشتہ 60 سالوں کے دوران کل زیرکاشت اراضی میں صرف 40 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ آبادی میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ زرعی اراضی میں تشویشناک کمی کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے جنگلات میں بھی وسیع پیمانے پر کمی دیکھنے میں آئی ہے جو ہمارے ماحولیات پر شدید منفی اثر ڈال رہی ہے۔ اس ماحولیاتی تبدیلی سے قدرتی آفات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

4۔ دیگر سورسز کا بے دریغ استعمال

مذکورہ بالا مسائل کے علاوہ ہماری سڑکیں، سکول، ہسپتال، پولیس، عدالتیں جو 23 کروڑ آبادی کے لیے ناکافی ہیں اور اگر یہ آبادی مزید بڑھ گئی تو اس وقت ہم کیا کریں گے؟ آپ دور نہ جائیں عدالتی نظام کو دیکھ لیں، ہائیکورٹ میں پہنچنے والے کسی کیس کی دو، دو سال تک باری نہیں آتی۔ جبکہ نارمل سے نارمل کیس بھی دس، دس سال تک چلتارہتا ہے۔

اس کے علاوہ ابھی ہم 23 کروڑ آبادی کے ساتھ گندم، چینی سمیت ہر چیز امپورٹ کر رہے ہیں، یعنی آپ اندازہ لگالیں کہ ہم جن چیزوں میں یا تو خودکفیل تھے یا ان چیزوں کی ایکسپورٹ کر رہے تھے، وہی چیزیں اب ہمیں باہر سے منگوانا پڑ رہی ہیں۔ لہٰذا اگر ہم نے ابھی آبادی کو کنٹرول نہ کیا اور آنے والے چند سالوں میں یہ آبادی اگر 40 کروڑ ہوگئی تو پھر ہم کیا کریں گے؟

5۔ خوراک کا مسئلہ

پاکستان کے لیے خود اپنی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے اثرات گندم کی قلت کے علاوہ پھلوں اور دالوں سمیت ضروری اشیائے خوردونوش کی درآمد کی شکل میں پہلے ہی سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔

آبادی بڑھنے سے شہروں کی طرف بوجھ کابڑھنا

ایک اور تشویشناک بات شہری آبادی میں تیز اضافہ ہے جو کہ بڑے شہروں کے نازک انفراسٹرکچر پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ مردم شماری کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ مردم شماری کے مقابلے میں اب شہری آبادیوں میں لامحدود اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ شہری اور دیہی آبادی کی واضح تعریف نہ ہونے کی وجہ سے یہ حقیقت بھی مردم شماری میں نہیں نظر آئی کہ پاکستان شہری آبادی میں اضافے کی تیز ترین شرح رکھتا ہے۔ چنانچہ مجموعی آبادی کا صرف 36.4 فیصد شہری ہونا بھی غیرحقیقی محسوس ہوتا ہے۔

تھامس مالتھس کے نزدیک آبادی میں اضافے اور وسائل میں کمی

کثرت آبادی کے مسئلہ کو سماجی علوم بالخصوص معاشیات اور سماجیات میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس موضوع پر سب سے پہلے تھامس مالتھس نے 1978ء میں ایک مضمون شائع کیا جو بعد میں علم آبادیات کی بنیاد بنا۔ مالتھس کا کہنا ہے کہ انسانی آبادی میں اضافہ جیومیٹریکل (Geometrical) انداز میں ہوتا ہے جیسے 2-4-8-16 جبکہ اس کے بالمقابل غذائی اجناس کی پیداوار ار مشکل (Arithmetical) انداز میں ہوتی ہے جیسے 1-2-3-4-5۔ مالتھس کے مطابق انسانی آبادی ہر 25 سال میں دوگنا ہو جاتی ہے جبکہ زرعی پیدوار میں اس شرح سے اضافہ نہیں ہوتا۔ یعنی کسی ملک کی آبادی 2000ء میں ایک کروڑ تھی تو وہ 2025ء میں دو کروڑ ہو جائے گی۔ اس لیے اگر آبادی کے اضافہ کی رفتار پر قابو پانے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو دنیا کوسخت بحرانی حالات سے دوچار ہونا پڑے گا۔

ایسے ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے جہاں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ انتہائی سنگین صورتحال اختیار کر چکا ہے۔ ہمارے سیاستدان اور دانشور حضرات دہشت گردی، مہنگائی، توانائی کا بحران اور بے روزگاری کو پاکستان کے بڑے مسائل قرار دیتے ہیں لیکن کثرت آبادی کا مسئلہ جو ان تمام مسائل کی جڑ ہے اس کی طرف بھی خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔

ہم ’’بے کار‘‘ آبادی پیدا کر رہے ہیں؟

یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم نے آبادی کے پھیلاؤ کی طرف توجہ نہ دی اور اس ضمن میں ہم بے کار آبادی پیدا کر رہے ہیں، یہ صرف وسائل (Sources ) کو استعمال کر رہی ہے اگر پروڈیوس کچھ نہیں کررہی۔ فرض کریں کہ اگر اس ملک کی آبادی 8 کروڑ ہوتی، میرے خیال میں تب ملک زیادہ خوشحال ہوتا۔ کیوں کہ نہ تو ہمیں 23 کروڑ عوام کے لیے اتنا زیادہ ایندھن منگوانا پڑتا، نہ مشینری امپورٹ کرنا پڑتی اور نہ ہی ہمیں دوسرے ممالک سے قرض لے کر ملک کو چلانا پڑتا۔ لیکن فی الوقت تو المیہ یہ ہے کہ ہماری 70 فیصد آبادی بے کار بیٹھی ہے، کچھ کام نہیں کر رہی۔ پاکستان میں بسنے والے غریب خاندان اور اْن کے چیلنجز پاکستان میں اس وقت کل 4 کروڑ سے زائد خاندان آباد ہیں، جن میں سے 39 فیصد خاندان خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ انہیں جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں سرفہرست مہنگائی، بیروزگاری، غذائی قلت، رہائش، تعلیم، صحت وصفائی، پینے کیلئے صاف پانی، ماحولیاتی وفضائی آلودگی ہلکی وسائل میں کمی اور ٹرانسپورٹ کے مسائل خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جس قدر آبادی بڑھ چکی ہے اس تناسب سے وسائل روزگار پیدا نہیں ہو پار ہے۔ وسائل کم ہونے کی وجہ سے غربت بڑھ گئی ہے۔ رہی سہی کسر مہنگائی نے پوری کر دی۔ لوگ روزگار کی تلاش میں دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف نکل مکانی پر مجبور ہیں جبکہ شہروں میں ٹاؤن پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے سماجی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ شہروں میں رہائشی ضروریات کے پیش نظر سرسبز وشاداب اراضی پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنائی جارہی ہیں۔ یہ حقیقت کہ 2050ء تک پاکستان میں 35 کروڑ افراد ہوں گے یہ انکشاف بہت سے لوگوں کی راتوں کی نیند اڑا رہا ہے۔

اس کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی مختلف سماجی برائیوں کو جنم دے رہی ہے جن میں کم عمری میں شادیاں، چائلڈ لیبر اور بچوں کا استحصال، بیروزگاری ،ناخواندگی میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی انتہاپسندی شامل ہے۔ موجودہ شرح افزائش کے پیش نظر پاکستان میں 2040ء تک 12 کروڑ ملازمتیں پیدا کرنا ہوگی۔ 85 ہزار مزید پرائمری سکول بنانے ہوں گے اور ایک کروڑ 90 لاکھ اضافی مکانات تعمیر کرنے ہونگے۔ اس طرح صحت کے شعبے میں بھی بہت بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔

اگر آبادی کے بڑھنے کے بعد مزید مسائل پر بات کریں تو آبادی میں بے پناہ اضافے سے پاکستانی معاشرے میں ناخواندگی، بے حسی، خوراک کی کمی، قلت آب وبجلی،غربت، بے روزگاری، ملاوٹ، مہنگائی، بدعنوانی، انتہاپسندی، دہشت گردی میں اضافہ، منشیات کے استعمال کے رجحان میں اضافہ، شادی نہ ہونے کے مسائل میں اضافہ، خواتین وبچوں کے ساتھ زیادتی میں اضافہ، طلاق کے رجحان میں اضافہ، بیماریاں پھیلنے کے باعث علاج کرانے کی دستیاب سہولتوں اور ہسپتالوں کی کمی کے باعث اموات کی شرح میں اضافہ، پیداوار وزراعت میں کمی،ضرورت کے مطابق کھیلنے کے میدان میسر نہ ہونا، رہائشی علاقوں کی کمی اور اس کمی کو پورا کرنے کے لیے جنگلات اور چٹانیں کاٹ کر شہر آباد کرنے کے مسائل قدرتی ماحول کی تباہی، بدامنی، لاقانونیت اور جرائم کی شرح میں اضافے کی وجہ سے کاروبار صنعتیں بند ہو جانا، نئی صنعتوں کا نہ لگنا، معیشت ٹھپ ہو جانا، دیہاتوں سے روزگار کے سلسلے میں عوام کا شہروں کا رخ کرنا سمیت دیگر ہولناک مسائل عوام اور معاشرے کو مزید تیزی سے نگل رہے ہیں۔

ہمایوں سلیم 32 سال سے زائد عرصہ سے شعبہ صحافت سے منسلک ہیں، تمام بڑے قومی اخبارات کے لیے خدمات انجام دینے کا اعزاز رکھتے ہیں، میگزین ایڈیٹر اور ایڈیٹر کی حیثیت سے کئی اداروں میں کام کرنے کے بعد ان دنوں سٹی چینل لاہور رنگ کے ڈائریکٹر نیوز ہیں۔ اردو کرانیکل کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ ترین13 گھنٹے ago

اولمپکس کی افتتاحی تقریب سے پہلے فرانس میں ٹرین نیٹ ورک پر حملے

تازہ ترین13 گھنٹے ago

جماعت اسلامی نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں مختلف مقامات پر دھرنا دے دیا، مذاکرات کے لیے تیار ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات

تازہ ترین14 گھنٹے ago

صدر مملکت نے سپریم کورٹ میں دو ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی

پاکستان15 گھنٹے ago

عمران خان کی رہائی کے لیے پی ٹی آئی جیل بھرو تحریک شروع کرے، دو گھنٹے کی بھوک ہڑتال مذاق ہے، نثار کھوڑو

تازہ ترین16 گھنٹے ago

ہمارے نام پر ڈالر لے کر وسائل کھائے گئے، بطور وزیراعلیٰ اعلان کرتا ہوں صوبے میں کہیں بھی آپریشن نہیں کرنے دوں گا، علی امین گنڈا پور

پاکستان16 گھنٹے ago

رومانیہ میں پاکستان نیوی کے آف شور پٹرول ویسل پی این ایس حنین کی کمیشننگ تقریب

تازہ ترین18 گھنٹے ago

کراچی میں رات کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی، نیپرا نے کے الیکٹرک کو ہدایت جاری کردی

پاکستان18 گھنٹے ago

پنجاب میں متوفی سرکاری ملازمین کے اہل خانہ کو ملازمت دینے کا قانون ختم

مقبول ترین