تازہ ترین

فیض آباد دھرنے میں جنرل ریٹائرڈ فیض حمید بے قصور، شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ غفلت برتی، کمیشن کی رپورٹ

Published

on

فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو کلین چٹ دے دی۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ حکومتی پالیسی میں خامیوں کی وجہ سے فیض آباد دھرنے جیسے واقعات کو ہوا ملتی ہے، اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان  عباسی نے فیض حمید کو معاملہ حل کرنےکا مینڈیٹ دیا تھا۔

فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن  نے اپنی رپورٹ مرتب کرلی، کمیشن نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید کو کلین چٹ دے دی ہے۔

تین رکنی انکوائری کمیشن سابق آئی جی سید اخترعلی شاہ کی سربراہی میں انکواٸری کر رہا تھا، انکوائری کمیشن نے تحریک لبیک کے فیض آباد دھرنے سے جڑے محرکات کا جائزہ لے کر رپورٹ تیار کیں۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال،سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف، سابق ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان، نے فیض آباد دھرنا کی سہولت کاری میں ادارے یا ادارے کے کسی فرد کے کردار سے انکار کیا۔

کمیشن رپورٹ نے گواہوں کے بیانات کی روشنی میں قرار دیا کہ 22 نومبر 2017 کو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ڈی جی سی فیض حمید کو معاملہ کو حل کرنے کا مینڈیٹ دیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق فیض حمید نے بطور میجر جنرل ڈی جی سی آئی ایس آئی معاہدے پر دستخط کرنا تھے، اس وقت کے  آرمی چیف اور ڈی جی آٸی ایس آٸی نے فیض حمید کو معاہدے کی اجازت دی تھی۔

رپورٹ میں کمیشن نےنیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عملدر آمد یقینی بنانے پر زوردیا اور کہا کہ پولیس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم میں کمزوریوں کا بھی احاطہ کیا جائے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ  پالیسی سازوں کو فیض آباد دھرنے سے سبق سیکھنا ہوگا، حکومتی پالیسی میں خامیوں کی وجہ سے فیض آباد دھرنے جیسے واقعات کو ہوا ملتی ہے۔

کمیشن رپورٹ میں کہا گیا کہ پنجاب حکومت نے ٹی ایل پی مارچ کو لاہور میں روکنے کے بجائے اسلام آباد جانے کی اجازت دی،جڑواں شہروں کی پولیس میں رابطے کے فقدان کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئیں، سیکڑوں افراد زخمی ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ  وفاقی حکومت نے مظاہرین کی قیادت تک رسائی کے لیے آئی ایس آئی کی خدمات حاصل کیں،25 نومبر 2017 کو ایجنسی کے تعاون سے معاہدہ ہونے پر مظاہرین منتشر ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق  دھرنے کے دوران فوجی افسروں، نوازشریف اور وزرا کو سوشل میڈیا پر دھمکیاں دی گئیں، سوشل میڈیا پروپیگنڈے کے خلاف حکومت نے ایکشن لینے میں کوتاہی برتی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ فیض آباد دھرنے کے دوران شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے،پنجاب حکومت  غافل اور کمزور رہی جس کے باعث خون خرابہ ہوا۔

رپورٹ کے مطابق  امن عامہ حکومت کی ذمہ داری ہے،دیگر شعبوں کو مداخلت سے گریز کرنا چاہیے،اس وقت کی ملکی قیادت نے کسی ادارے یا اہلکار کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا۔

کمیشن نے تجویز کیا کہ سویلین معاملے میں فوج یا ایجنسی کی مداخلت سے ادارے کی ساکھ شدید متاثر ہوتی ہے، فوج کو تنقید سے بچنے کے لیے عوامی معاملات میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔

کمیشن نے قرار دیا کہ  عوامی معاملات کی ہینڈلنگ آئی بی اور سول ایڈمنسٹریشن کی ذمہ داری ہے، عقیدے کی بنیاد پر تشدد کے خاتمے کیلئے امن کواسٹریٹجک مقصد بنانا ہوگا۔

کمیشن نے سفارش کی کہ ریاست آئین، انسانی حقوق، جمہوریت ، قانون کی حکمرانی پر سمجھوتہ نہ کرے،اسلام آباد تعیناتی سے قبل پولیس افسران کو دشوار علاقوں میں تعینات کیا جائے۔

کمیشن نے تجویز کیا کہ پرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے زیرو ٹالرینس پالیسی لازمی ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version