ٹاپ سٹوریز
باکمال لوگ، لاجواب سروس، ناکارہ ٹائرز 18 گھنٹے تاخیر کا سبب بن گئے
پاکستان ایئرلائنز کی پروازوں میں تاخیر اور منسوخی عام ہوتی جا رہی اور اب تو پروازوں کی تاخیر کو خبر میں بھی اہمیت نہیں ملتی لیکن تاخیر کی وجوہات اس قدر عجیب سامنے ہوتی ہیں کہ خبر بن ہی جاتی ہے۔
یہی معاملہ جدہ سے کراچی آنے والی پرواز کے ساتھ ہوا، جو ناکارہ ٹائروں کی وجہ سے 18 گھنٹے کی بدترین تاخیر کے ساتھ کراچی ایئرپورٹ پر اتری،پرواز کے ذریعے وطن پہنچنے والے مسافروں اور عمرہ زائرین کو سعودی ائیر پورٹ کے لاونج میں طویل انتظار کی اذیت سہنا پڑی۔
پرواز سے چند لمحے پہلے ناکارہ ٹائرز کا پتہ چلا
ذرائع کے مطابق سعودی عرب سے کراچی آنیوالے مسافراس وقت غیرمعمولی صورتحال کے دوران جدہ ائرپورٹ پر محصور ہوئے،جب پرواز کی روانگی سے کچھ وقت قبل تکنیکی مسئلہ پیدا ہوا،جہازکے کاک پٹ کریو اور ٹارمک پر موجود عملے کی جانب سےطیارے کے پش بیک سے قبل معائنے کے دوران انکشاف ہوا کہ لینڈنگ گئیر کے3 ٹائر گھس چکےہیں اور کمزور حالت کے باعث ٹیک آف، لینڈنگ کے لیے کسی بھی طور موزوں نہیں ہیں بلکہ فلائٹ کے ان انتہائی حساس نوعیت کے مراحل کے لیے تقریبا ناکارہ ہیں۔
ناکارہ ٹائروں کے ساتھ اڑان اور بعدازاں لینڈنگ کسی بھی خطرے کو دعوت دینے کے مترادف تھی،ذرائع کے مطابق قومی ائیرلائن کی پرواز پی کے832نے ہفتے کی رات 2بجے جدہ سے کراچی کیلئے روانہ ہونا تھا،تاہم مذکورہ صورتحال کے پیش نظراگلے کئی گھنٹوں تک اڑان ممکن نہ ہوسکی،اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ خراب ٹائروں کی تبدیلی لازمی ہے۔
ایک عجیب و غریب صورتحال تھی کیونکہ بورڈنگ پاسز حاصل کرنے کے بعد پرواز کے مسافر جہاز پر سوار ہونے کے منتظر تھے،بدقسمتی سے ائیرپورٹ پہنچنے والے مسافروں اور ان میں شامل بیشتر عمرہ زائرین کو وطن واپس پہنچانے کے لیے اچانک فنی کا شکار ہونے والے جہاز کے علاوہ فوری طور پر کوئی متبادل طیارہ دستیاب نہیں تھا،نہ ہی یہ آپشن موجود تھا کہ متاثرہ جہاز کے مسافروں کو کسی دوسری پرواز پر ایڈجسٹ کیا جائے۔
مسافروں کو حقائق سے لاعلم رکھنے کی کوشش
اس اچانک اور غیر متوقع صورتحال کا سارا ملبہ جہاز کے مسافروں پر گرا،جنھیں اپنے بھاری بھرکم سامان کے ہمراہ جدہ ائیرپورٹ کے لاونج میں گھنٹوں انتظار کی سولی پر لٹکنا پڑا،مسلسل تاخیر کے سبب پرواز کے مسافروں نے ائیر پورٹ کے لاؤنج میں کمزور سا احتجاج بھی کیا،ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے اور احتجاج شدید ہونے کے خدشے کے پیش نظر پی آئی اے کے عملے نے مسافروں کو ہوٹل منتقل کیا۔
مسافروں کو یہ یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ پرواز اگلے 5 گھنٹے یعنی صبح7بجے روانہ ہوگی،مسافروں کو اس بات سے لاعلم رکھا گیا کہ کوئی ٹیکنیکل مسئلہ ہوگیا ہے،بلکہ انھیں مسلسل یہ باور کروایا جاتا رہا ہے کہ روانگی میں تاخیر طیارہ دستیاب نہ ہونے کے سبب ہورہی ہے۔
ذرائع کے مطابق اتوار کی صبح مسافروں کو ایک مرتبہ پھر ہوٹل سے دوبارہ ائیر پورٹ لایا گیا،مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات والا نکلا کیونکہ پرواز ابھی بھی اڑان کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں تھی،اور یوں صبح7بجے روانگی بھی ممکن نہ ہوسکی،مسافروں نے الزام عائد کیاکہ کئی گھنٹوں سے جدہ ایئرپورٹ پر موجودمسافروں کو کھانے پینے سمیت کوئی سہولت فراہم نہیں کی گئی،پرواز سے پاکستان روانہ ہونے والے خواتین،بزرگ اور بچے انتہائی پریشانی سے دوچار رہے۔
مسافروں کے مطابق پرواز کی روانگی کے حوالے سے مسافروں کو درست معلومات فراہم نہیں کی گئی،بیشتر وقت پی آئی اے کا عملہ غائب رہا،جس کے سبب ان کی پریشانیاں مزید بڑھ گئیں،بعدازاں مسافروں کی دلی مراد بر آئی اورپی آئی اے کے بوئنگ 777 ساختہ جہاز کی پرواز پی کے 832 نے شام ساڑھے 4 بجے کے لگ بھگ اڑان بھری اور اتوار کی رات 8:30 پر کراچی ائیرپورٹ پر اتری۔
ٹائرز خرابی کی تصدیق لیکن لاپرواہی سے انکار
ترجمان پی آئی اے کے مطابق جدہ سے کراچی آنے والی پرواز کے ٹائرتبدیل کرنے کی وجہ سے روانگی میں تاخیر ہوئی،قومی ائیر لائن میں حفاظتی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا،مسافروں کا مکمل تحفظ اولین ترجیحات میں شامل ہے،طیارے کے ٹائر تبدیل کرنا آپریشنل وجوہات کی بنا پر ناگزیر تھا۔جدہ کے شمالی ٹرمینل پر سہولیات کا فقدان ہے،مسافروں کو جو زحمت اٹھانا پڑی اس پر قومی ائیرلائن انتظامیہ معذرت خواہ ہے۔
ترجمان پی آئی اے نے عین وقت پر ٹائروں کےناکارہ ہونے میں کسی بھی لاپرواہی کے عنصر کو مسترد کیا،ان کا کہنا ہے کہ ایسا اکثر وبیشتر ہوجاتا ہے،بالخصوص گرمی اور تیز ہوا ، غیرہموار لینڈنگ کے سبب جہاز کے ٹائروں کو نقصان پہنچنے یا ان کے کمزور پڑنے کا اندیشہ رہتا ہے،یہ تاثر کسی طور پر درست نہیں کہ طیارے کے ٹائر زائد المعیاد تھے یا پھر انھیں صحیح وقت پر تبدیل نہیں کیا گیا۔
پی آئی اے پروازوں کے ان گنت واقعات
یہ تو ایک واقعہ تھا جو جدہ اور کراچی کی پرواز پر ہوا،لیکن ماضی بعید اور ماضی قریب میں پی آئی اے کی تاریخ ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے،جو اس بات کی غمازہے کہ انتظامی طور پر مختلف شعبہ جات کی درست کارکردگی پر گرفت ڈھیلی پڑ چکی ہے
چند دہائیاں پہلے تک پی آئی اے کا شمار خطے کی انتہائی مہارت اور پیشہ ورانہ تربیت کی حامل ائیرلائنز میں ہوا کرتا تھا،اورینٹ ائیر ویز سے پی آئی اے تک کے اس سفر نے ایک سنہرا دور دیکھا،حتیٰ کہ 80 کی دہائی میں ایمرٹس جیسی نوزائیدہ ائیرلائن کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے معاونت فراہم کی،جو آج اپنے فضائی بیڑے میں طیاروں کی فوج ظفر موج کے علاوہ 380 ساختہ جیسے زیادہ گنجائش والے دیوہیکل جہاز رکھتی ہے۔
ڈوبتا ہوا ٹائیٹینک
سیاسی بھرتیوں،بدعنوانی اور دیگر عوامل نے پی آئی اے کی تباہی میں ایک سلوپوائزن کا کام کیا،آج حال یہ ہے کہ قومی ائیر لائن اربوں روپے کے خسارے تلے دبی ہوئی ہے، پی آئی اے کو آج سفید ہاتھی سے تشبیہ دی جاتی ہے جبکہ ایک سابق وزیر برائے ہوابازی نے اسے ٹائٹینک قرار دیا جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ڈوب رہا ہے۔
پی آئی اے کو مختلف ادوار میں حکومتوں نے مصنوعی تنفس سے زندہ رکھنے کی کوششیں کیں، جس میں بیل آوٹ پیکیجز اوردیگر کئی شکلیں شامل ہیں،مگر اس کے باوجود اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھ سکا،فضاوں میں انتہائی قلیل فضائی بیڑے کے ساتھ محو پرواز پی آئی اے کو بے انتہا مسائل درپیش ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ پی آئی اے کی بحالی صرف اس صورت ممکن ہے کہ اس کے قرضوں کو ترکش ائیرلائن کی طرز پر صفر کردیا جائے،مگر موجودہ ملکی اقتصادی حالت میں تو قطعی ممکن نہیں ۔
پی آئی اے کے ساتھ بھونڈا مذاق
پی آئی اے کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق اس وقت ہوا جب اس کے کپتانوں پر جعلی پائلٹ لائسنس کا الزام لگا،اس معاملے نے تباہ حالی سے دوچار پی آئی اے میں ایک تلاطم برپا کردیا،جس کی بھاری قیمت یورپی ممالک میں پابندی کی صورت چکانی پڑی، جس نے قومی ائیر لائن کو مزید بحرانوں میں دھکیل دیا۔
اب حالت اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ پی آئی اے بوئنگ 777 اور ائیر بس 320 اڑانے والے کپتان دوسری ائیر لائنوں کو جوائن کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں،اگر ایسا ہوا تو قومی ائیر لائن میں ایک نیا بحران سر اٹھالے گا کیونکہ قومی ائیرلائن انتظامیہ کے لیے ٹرینی پائلٹس کے ذریعے اس صورتحال کو قابو میں لانا ممکن نہیں ہوگا،ان کی تربیت کے لیے کئی سال درکار ہونگے۔
مالی بحران کی سنگینی کی ایک جھلک عید الفطر پر دیکھنے کو ملی جب ایف بی آر نے پی آئی اے کے اکاؤنٹ سے ایک خطیر رقم واجبات کی مد میں نکال لی،جس کے بعد نوبت یہاں تک پہنچی کہ پی آئی اے کو آفیسر کیڈر بشمول کپتانوں کی تنخواہیں ادا کرنے کے لالے پڑ گئے،پہلی تاریخ کو ملنے والی تنخواہ جب مہینے کے وسط(15تاریخ )تک بھی نہ ملی تو جہاز کے پائلٹوں نے پروازیں نہ اڑانے کی دھمکی دی اور چند ایک نے پروازیں آپریٹ کرنے سے منع بھی کیا۔