پاکستان

پاکستان:بڑھتی دہشت گردی،افغان وزیرخارجہ کی آمدمثبت پیشرفت، تعلقات دونوں کی ضرورت

Published

on

پاکستان آج ہفتہ کو چین اور افغانستان کے ساتھ سہ فریقی مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے، ان مذاکرات کے لیے چین کے وزیر خارجہ چن گانگ اور افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی جمعہ کو پاکستان پہنچ گئے تھے۔

سہ فریقی اجلاس کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری دونوں ملکوں کے ورزاء خارجہ کے ساتھ الگ الگ ملاقاتیں بھی کریں گے۔

افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کو دورہ پاکستان کے لیے اقوام متحدہ نے خصوصی اجازت دی ہے کیونکہ ان پر عالمی سطح پر سفری پابندیاں عائد ہیں۔ افغان وزارت خارجہ کے نائب ترجمان زیاد احمد توکل نے ایک بیان میں کہا کہ افغانستان کی حکومت پاکستان کے ساتھ دوطرفہ سیاسی، تجارتی تعلقات، علاقائی استحکام، اور دونوں ملکوں کے درمیان راہداری پر جامع مذاکرات کی خواہاں ہے۔

چین کے وزیر خارجہ چن گانگ عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار پاکستان پہنچے ہیں جبکہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی آخری بار نومبر 2011 میں پاکستان آئے تھے، یہ دورہ کابل پر افغان طالبان کے کنٹرول کے بعد ہوا تھا۔

افغان وزیر خارجہ کی اس بار پاکستان آمد سے اقوام متحدہ نے دوحہ، قطر میں افغانستان سے متعلق ایک کانفرنس کا انعقاد کیا لیکن طالبان حکومت اس کانفرنس میں مدعو نہیں تھی۔ اس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا کہ خواتین اور بچیوں کے حقوق پر ہونے والے حملوں پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ انتویو گوتیرس نے واضح کیا کہ طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

پاکستان افغانستان کی مشترکہ سرحد جو ڈیورنڈ لائن کہلاتی ہے، 2600 کلومیٹر طویل ہے، پاکستان اس ہمسائے کے ساتھ قریبی تعلقات کا خواہاں ہے لیکن افغان وزیر خارجہ کے دورے سے پہلے پاکستان میں دہشتگرد حملوں میں اضافہ دیکھا گیا۔

پاکستان کا موقف ہے کہ اس کی سرزمین پر دہشتگرد حملوں میں کالعدم تحریک طالبان ملوث ہے، جو نظریاتی طور پر افغان طالبان کے قریب ہے اور افغانستان کے اندر سے ان حملوں کو منظم کرتی ہے۔ اس حوالے سے دونوں ملکوں کے درمیان تلخی پائی جاتی ہے، اس سب کے باوجود پاکستان نے طالبان حکومت کو تسلیم کئے بغیر اس کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

بھارت کے ساحلی شہر گوا میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرا خارجہ اجلاس میں پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ بامعنی رابطے رکھے، باار بار بڑی طاقتوں کی جنگ کا میدان بننے والے افغانستان کا ہم سب پر حق ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرائیں۔

افغان وزیر خارجہ کے دورے کو پاک افغان امور کے ماہر عبدالسید حالیہ کشیدگی کے دوران اہم پیشرفت تصور کرتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے میڈیا گروپ سے بات کرتے ہوئے عبدالسید نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں کالعدم تحریک طالبان نے پاکستان کے اندر پے در پے دہشتگرد حملے کئے، اس پر پاکستان نے افغان حکومت سے شدید احتجاج کیا لیکن افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی جانب سے اس کا سخت جواب آیا۔ اب امیر خان متقی کی اسلام آباد آمد ان کے موقف میں نرمی اور مثبت پیشرفت کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔

اس سہ فریقی اجلاس کا تیسرا فریق چین، پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں میں اہم مفادات رکھتا ہے۔ بیجنگ، اسلام آباد کا کلیدی معاشی اور دفاعی پارٹنر ہے۔ چین نے پاکستان میں ایک عظیم منصوبے سی پیک پر بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ تاہم چین پاکستان کے اندر اپنے شہریوں اور مفادات پر دہشتگرد حملوں سے پریشان ہے۔ چین کی کمپنیاں افغانستان میں بھی سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ ایک چینی کمپنی نے اس سال جنوری میں افغان حکومت کے ساتھ کئی ملین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کئے۔ یہ معاہدہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اہم اور بڑا سرمایہ کاری معاہدہ ہے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ افغانستان میں چین دلچسپی کا تعلق اقتصادی مفادات سے زیادہ سیکورٹی خدشات سے ہے۔عبدالسید کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی خدشات اور سخت الفاظ کے تبادلے کے باوجود پاکستان اورافغانستان کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد کی سیاسی ضرورت ہے کہ وہ کابل کے ساتھ تعلقات برقراررکھے، کیونکہ افغان طالبان دوسرے علاقائی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور پاکستان انہیں نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اسی طرح افغان طالبان کو بھی احساس ہے کہ خطے میں کسی بھی سفارتی پیش رفت کے باوجود، ان پر لازم ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات برقرار رکھیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version