دنیا
حسن البنا کے نواسے، آکسفورڈ پروفیسر طارق رمضان جنسی حملے کے الزامات سے بری
سوئٹزرلینڈ کی ایک عدالت نے بدھ (24 مئی) کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر، اسلامی سکالر طارق رمضان کو جنسی زیادتی اور جنسی حملے کے مقدمہ میں شواہد نہ ہونے پر بری کردیا۔ مقدمہ کی سماعت جنیوا کریمنل کورٹ نے کی، مدعیہ کے وکیل نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کو چیلنج کریں گے۔
طارق رمضان نے ہیمشہ ان الزامات کی نفی کی ہے۔ طارق رمضان نے مقدمہ کے آغاز پر ججوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے الزام لگانے والی خاتون کو اپنا بوسہ لینے دیا تھا لیکن ان دونوں کے درمیان کوئی جنسی تعلق نہیں۔
اس مقدمے کی مدعی خاتون سوئس شہری ہیں اور نومسلم ہیں، ان خاتون کا دعویٰ ہے کہ انہیں دھمکیوں اور خطرات کا سامنا ہے اس لئے اپنا نام سامنے نہیں لانا چاہتیں۔ اس خاتون نے عدالت میں انتہائی پرسکون لہجے میں کہا کہ جب طارق رمضان نے ان پر جنسی حملہ کیا تو انہیں لگا کہ وہ مر جائیں گی۔ خاتون نے الزام لگایا کہ ان پر تشدد کیا گیا اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ واقعہ 28 اکتوبر 2008 کا ہے اور اس وقت مدعیہ کی عمر 40 سال تھی۔
طارق رمضان پر الزام ہے کہ انہوں نے جنیوا کے ایک ہوٹل کمرے میں پرتشدد جنسی حملے کا نشانہ بنایا۔ عدالت میں طارق رمضان اور مدعیہ کے درمیان ایک سکرین لگائی گئی تھی جس کی درخواست مدعیہ نے کی تھی، تاکہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ نہ سکیں۔
پراسیکیوٹر نے عدالت میں کہا کہ رمضان نے ” اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے یہ کام کیا تھا، ایک خاتون جسے وہ ایک چیز کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ وہ اس ڈراؤنے خواب کو کئی گھنٹوں تک جاری رکھنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا تھا”
طارق رمضان سیکولر حلقوں کے نزدیک پسندیدہ نہیں اور سیکولر حلقوں کا خیال ہے کہ وہ سیاسی اسلام کے حامی ہیں، طارق رمضان بھی سوئس شہری ہیں اور مصر نژاد ہیں۔ طارق رمضان مصر کی اخوان المسلمین کے بانی رہنما حسن البنا کے نواسے ہیں۔
طارق رمضان کے والد سعید رمضان بھی 50 کی دہائی میں اخوان کے لیڈر تھے اور اس وقت کے مصر کے صدر جمال عبدالناصر انہیں سی آئی ایجنٹ کہتے تھے۔ سعید رمضان مصر سے جلاوطن کر دیئے گئے تھے اور وہ سعودی عرب گئے تھے، جہاں وہ مسلم ورلڈ لیگ کے بانیوں میں تھے۔
سعید رمضان نے پاکستان میں بھی نمایاں کردار ادا کیا، وہ 1948 ء میںورلڈ مسلم کانگریس کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئے تھے، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے بھی ان کی ملاقاتیں رہیں۔ سعید رمضان پاکستان میں وہ جناح کیپ پہنتے رہے اور لوگ انہیں مصر کی بجائےپاکستان کا شہری تصور کرتے تھے۔ وہ ریڈیو پاکستان پر پروگرام کرتے رہے، 1956 کے آئین میں ریاست کو اسلامی جمہوریہ قرار دینے میں بھی ان کا کردار نمایاں تھا۔ وہ میڈیا میں پاکستان کو ایک شعری مملکت بنانے کی بھرپور وکالت کرتے رہے،کہا جاتا ہے کہ سعید رمضان کو سی آئی اے بھی سپورٹ کرتی رہی جو انہیں کمیونزم کے خلاف ایک اتحادی تصور کرتی تھی۔