دنیا

ہیٹ ویو:بھارت میں 1992 سے 2015 کے درمیان ہیٹ ویو 22 ہزار انسانوں کی جان لے چکی

Published

on

دو ہزار بیس کے بیسٹ سیلنگ ناول ْ دی منسٹری آف فیوچرٗ میں مصنف کم سٹینلے  رابنسن نے آغاز بھارت میں ہلاکت خیز ہیٹ ویو سے کیا جو بھارت میں لاکھوں انسانوں کو ہلاک کر دیتی ہے۔ مصنف نے لکھا کہ آسمان ایک ایٹم بم کی طرح بھڑک رہا ہے اور اس سے نکلنے والی گرمی چہرے پر تھپڑ کی طرح ہے، آنکھوں میں ڈنک سے لگتے ہیں، اور ہر شے زردی مائل بھرے رنگ کی اور خاکستری سی دکھائی دیتی ہے، پانی بھی مددگار نہیں کیونکہ یہ غسل کی طرح گرم اور ہوا سے بھی بدتر ہے۔ لوگ تیزی سے مر تے ہیں۔

ہیٹ ویو کے متعلق رابنسن کی کہانی تخیلاتی ہے لیکن یہ دل دہلا دینے والی وارننگ بھی ہے۔بھارت میں اپریل کے آخری ہفتے میں ہیٹ  سٹروک سے 12 افراد کی موت ہوئی اور بہت سے لوگ ہسپتالوں میں داخل ہوئے۔

بھارت ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں گرمی کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ گرم دن اور گرم رات کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور 2050 تک ان میں دو سے چار گنا اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ گرمی کی لہروں کے پہلے آنے، زیادہ دیر تک رہنے اور بار بار ہونے کی بھی پیش گوئی کی گئی ہے۔

بھارت میں ہیٹ ویو سے 22 ہزار اموات

محکمہ موسمیات نے مئی کے آخر تک معمول سے زیادہ درجہ حرارت کی پیشگوئی کی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق  بھارت میں 1992 سے 2015 کے درمیان ہیٹ ویو 22 ہزار انسانوں کی جان لے چکی ہے اور  ماہرین کا ماننا ہے کہ حقیقی اعداد و شمار اس سے زیادہ ہو سکتے ہیں ۔گجرات میں قائم انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ  کے ڈائریکٹر دلیپ موالنکر کا کہنا ہے کہ   ریاست اب تک  گرمی کی اہمیت اور اس سے ہونے والی اموات کو  سمجھ نہیں پائی ہے کیونکہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم اموات کا درست ڈیٹا مرتب نہیں کرتے۔

پرودیسر دلیپ موالنکر نے ہیٹ ایکشن پلان  پیش کیا تھا جس پر 2013 میں عمل شروع ہوا۔ اس ایکشن پلان میں بہت سادہ حل تجویز کئے گئے تھے، جیسے گھر کے اندر رہنا، بلاضرورت گھر سے نہ نکلنا، گھر سے نکلنے سے پہلے بہت سا پانی پینا،بیمار محسوس ہونے کی صورت میں فوری ہسپتال کی ایمرجنسی میں جانا، اس ایکشن پلان سے گجرات کے گرم اور خشک شہر احمدآباد میں  ہیٹ ویو سے اموات میں کمی تو آئی  لیکن اس قدر سادہ حل بھارتی معاشرے کو دیکھتے ہوئے ترتیب دینا بہت زیادہ قابل عمل نہیں ۔

ہیٹ ویو سے بچاؤ کے لیے ایکشن پلان

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیٹ ویو سے بچاؤ کے لیے پہلے تو ہیٹ ویو سے متاثر ہونے کے زیادہ امکانات رکھنے والے گروپس کی شناخت اہم ہے اس کے بعد انہیں بچانے کے   حل تلاش کئے جانے چاہئیں۔  کسان، تعمیراتی شعبے کے مزدور، حاملہ خواتین معمر شہری اور بچے ہیٹ ویو سے جلد متاثر ہونے والے گروپس ہیں ۔

بھارت میں تین چوتھائی مزدور سورج کی گرمی میں ہونے والے کاموں سے وابستہ ہیں جیسے تعمیرات اور کان کنی۔ زمین جس قدر گرم ہوتی جا رہی ہے ان مزدوروں  کے لیے جسم کو خود کو ٹھنڈا رکھنا اس قدر مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مزدور جب کام کرتا ہے تو اس کے جسم میں بھی حرارت پیدا ہوتی ہے، ہیٹ ویو کے دوران یہ مزدوری بدترین ہو جاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کن علاقوں میں زیادہ تر لوگ ایسی ملازمتوں سے وابستہ ہیں جو ہیٹ ویو کا آسان شکار ہیں، کیا وہ لوگ کولر خرید سکتے ہیں یا کام چھوڑنے کے متحمل ہو سکتے ہیں ۔ یہ  بھی ہو سکتا ہے کہ شہر کے صرف تین فیصد علاقے میں ایسی ملازمتوں کی تعداد 80 فیصد ہو۔

ہیٹ ویو کے آسان اور سادہ حل

ہیٹ ویو کے اکثر آسان حل ہو سکتے ہیں۔ انتہائی متاثرہ  اور گرم علاقوں میں بڑے پیمانے پر درخت لگانا یا گرمی کے اثرات کم کرنے کے لیے عمارتوں کے ڈیزائن میں تبدیلی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ گرمی زیادہ ہو تو کام روکنے یا سست کرنے سے بھی مزدوروں کے تحفظ میں مدد مل سکتی ہے، اسی طرح کثیر منزلہ عمارت کے سب سے اوپری فلور سے لوگوں کو نیچے بغیر ایئرکنڈیشنر کمروں میں بھی منتقل کر دیا جائے تو انہیں کافی ریلیف مل سکتا ہے۔ بھارت میں 2000 سے 2004 اور 2017 سے 2021 کے دوران شدید گرمی سے  ہونے والی اموات میں 55 فیصد اضافہ ہوا۔

بھارت میں گرمی کو عام شہری بھی سنجیدہ نہیں لیتے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت چھتری کا بہت کم استعمال ہے۔ دہلی میں درجہ حرارت  کبھی کبھی  50 ڈگری سینٹی گریڈ کو بھی چھو جاتا ہے لیکن ان دنوں میں بھی دہلی کی سڑکوں پر چلتے عام افراد کے پاس چھتری بہت کم نظر آتی ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version