Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

منقسم پارلیمنٹ آگے کیسے بڑھے گی؟

Published

on

The Federal Capital Islamabad Local Government Bill 2024 passed by the National Assembly, the number of Union Council representatives was increased

دو ہفتوں کی اعصاب شکن کشمکش کے بعد بلآخر دو بڑی جماعتیں مرکز اور صوبوں میں حکومت سازی کے ایک تجریدی فارمولہ پر متفق ہو گئیں تاہم یہ سوال اب بھی محل نظر رہے گا کہ اتحادی حکومت مملکت کو سیاسی و معاشی مسائل کے اُس دلدل سے نکال پائے گی،جس میں عمران خان کی ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت نے اتارا ،جسے سنہ 2018 کے متنازعہ انتخابات کے ذریعے قوم پر زبردستی مسلط کیا گیا تھا مگر افسوس کہ اب جب وہ سیاسی حقیقت بنکر ابھرا تو اس کے دائرہ اثر کو محدود رکھنے کے لئے پھر انہی پامال شدہ جماعتوں کو آگے بڑھانے کی خاطر نظامی توڑ پھوڑ کی گئی،جنہیں کبھی راندہ درگاہ قرار دیکر دفن کر دیا گیا تھا۔

امر واقعہ یہ ہے کہ پانچ سال قبل جب اس وقت کی مقبول سیاسی جماعت، مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ جیل میں قید اور انکی صف اول و دوم کی قیادت نیب کے مقدمات میں الجھی ہوئی تھی،عین اسی وقت نادیدہ قوتوں نے دیگر جماعتوں سے وابستہ درجنوں الیٹیبلز کو توڑ کر پی ٹی آئی میں شامل کرایا تھا۔ لاریب، تھوڑے سے تغیر و تبدل کے ساتھ آج اُسی مشق ستم کیش کو خود عمران خان کے خلاف آزمایا گیا ،پتہ نہیں ہمارے سیاسی نظام میں تعمیر وتخریب کا یہ محوری سفر کب تک چلتا رہے گا۔

قومی سلامتی کے تقاضوں کی پروا کئے بغیر اپریل 2022 میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ختم کرکے اس کی جماعت کو ویسی تادیب سے گزارا گیا جیسا ستم چھ سال قبل نواز لیگ کے ساتھ روا رکھا گیا تھا چنانچہ اسی کتربیونت کے نتیجہ میں آج ہمارا ریاستی نظام پراگندہ و مضمحل ہو کر بے یقینی کی ایسی تاریکی میں بھٹکتا دکھائی دیتا ہے،جس سے نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔

صورت حال یہ ہے کہ وزیراعظم کے لئے 336 کے ایوان میں سادہ اکثریت کے لئے درکار 169ووٹ نواز لیگ سمیت کسی جماعت کے پاس موجود نہیں۔اگرچہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو 93 نشستیں ملیں تاہم پی ایم ایل این کو 80 ووٹوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت ہونے کے ناطے 55 نشستوں کی حامل پیپلزپارٹی اور17 سیٹیں لینے والی ایم کیو ایم کے ساتھ ملکر حکومت بنانے پہ مجبور ہونا پڑا لیکن اب کی بار تقسیم اختیارات کا فارمولہ قدرے عقلی اور قابل عمل دیکھائی دیتا ہے۔

اس وقت نواز لیگ ، پی پی پی اور ایم کیو ایم سے مل کر حکومت سازی کا مرحلہ تو سر کرنے والی ہے لیکن لیگ کے پیچھے کھڑی اتحادی جماعتیں پیچیدہ سیاسی مسائل اور معاشی بحران سے نمٹنے کے مضمرات کو باہم تقسیم کرنے سے ہچکچا رہی ہیں۔ علی ہذالقیاس، منقسم مینڈیٹ،محدود دائرہ اختیار ،عمیق معاشی بحران اور دگرگوں سیاسی حالات کو سلجھانے کا چیلنج قبول کرکے نوازلیگ وفاق میں چوتھی بار حکومت بنانے تو جا رہی ہے،جہاں انہیں ایسی بپھری ہوئی اپوزیشن کا سامنا ہو گا جس نے اپنے تمام وسائل نئے بندوبست کو بدنام کرنے کے لئے وقف کر رکھے ہیں،چنانچہ رواں ہفتہ کئی حوالوں سے انتہائی اہم ہو گا۔

بیرسٹر گوہر علی نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو قابو میں رکھنے کی خاطر انہیں انتہا پسند مذہبی جماعت سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونے کا حکم دیا ہے، اس سے قبل پی ٹی آئی نے اپنے ممبران اسمبلی کو شیعہ تنظیم وحدت المسلمین میں شامل کرانے کا اعلان کیا تھا لیکن ملک کی اکثریتی سنی آبادی کی طرف سے کڑی تنقید کے بعد پی ٹی آئی کو پسپا ہونا پڑا، بظاہر یہی لگتا ہے کہ قابل ذکر مینڈیٹ حاصل کرنے باعث پی ٹی آئی غیر شخصی قوتوں کے ساتھ جاری جنگ کو آگے بڑھائے گی۔

حیرت انگیز طور پہ موجودہ الیکشن کے نتیجہ میں ملک کی اُن مذہبی جماعتوں اور نسلی گروپوں کی پارلیمانی قوت کافی حد تک کم ہوئی جو روایتی طور پہ عالمی اسٹبلشمنٹ کی ضرورت سمجھی جاتی تھیں،بادی النظری میں اس الٹ پھیر سے یہی تاثر ملتا ہے کہ مستقبل کے سیاسی خاکہ میں مذہبی تنظیموں اور نسلی گروپوں کا کوئی کردار نہیں ہو گا،بلاشبہ کوئی ہے جو بڑی جماعتوں کے درمیان جاری شدید نوعیت کشمکش کی دھند میں مملکت کو سیکولر اقتدار اپنانے کی طرف دھکیل رہی ہے،چنانچہ اس تناظر میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کا انتہا پسند مذہبی جماعتوں میں پناہ لینا کوئی نیک شگون نہیں ہو سکتا۔

ملک کے چاروں صوبوں میں بھی منقسم مینڈیٹ سامنے آیا، سب سے بڑی آبادی کے حامل پنجاب میں 297 کے ایوان میں پی ایم ایل این 137 نشستیں کے ساتھ بڑی جماعت بن کر ابھری،پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے 116نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔سندھ میں 130 کے ایوان میں پی پی پی نے 84 نشستیں جیت کر چوتھی بار حکومت بنانے کی پوزیشن حاصل کر لی جبکہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے 115 کے ہاؤس میں سے 90 نشستیں جیت کر رجعت پسند مقتدرہ کی آسودگی کو متزلزل کر دیا۔بلوچستان 51 رکنی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے 11، 11 نشستیں، پی ایم ایل این 10 نشستوں کے ساتھ تیسری بڑی پارٹی بن گئی۔

گزشتہ دو سالوں کے دوران انتہائی چارج سیاسی ماحول میں منعقد ہونے والے انتہائی متنازع انتخابات کے نتیجہ میں وجود پانے والی اتحادی حکومت ایسی سخت معاشی اصلاحات نافذ نہیں کر پائے گی جن کی ملکی معیشت کو اشد ضرورت ہے، اس لئے حکمران اشرافیہ کے لئے حکومت کرنا آسان نہیں ہو گا۔اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ یہ سیاسی عدم استحکام اگلے انتخابات تک جاری رہے، جو پانچ سالوں سے پہلے بھی منعقد ہو سکتے ہیں۔

غیر مستحکم حکومت کی پالیسیوں پر ہمیشہ اسٹبلشمنٹ غالب رہے گی جس سے رائے عامہ بتدریج اندرونی خلفشاراور بیرونی خطرات بڑھتے جائیں گے۔ اس وقت مشکل یہی ہے کہ وفاقی سطح پر نواز لیگ کی ایسی کمزور حکومت بننے جا رہی ہے جو ہمہ وقت وقف اضطراب رہے گی، یہی دراصل انتخابات کے بعد کا سیاسی بحران ہو گا اور یہی اضطراب کسی بھی حکومت کے لئے ملک کو آگے بڑھانے اور بیمار معیشت کے ساختی مسائل سے بچنے کے لئے درکار جرات مندانہ اقتصادی اصلاحات کو آگے بڑھانے میں رکاوٹ بنے گا۔

منقسم قومی اسمبلی اور کمزور حکومت کا فوج پر حتمی انحصار قوم اور فوج کو باہم صف آرا کرنے کا سبب بنے گا حالانکہ پہلے سے سویلین امور میں اسٹبلشمنٹ کی طویل مداخلت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے تنازعات کو کند کرنے کے لئے ضروری تھا کہ ایک مستحکم سیاسی حکومت سامنے آ کر فوج کے خلاف زخم خوردہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کی تیزی سے بھڑکتی مہمات کی رخ گردانی کرتی،مستزاد یہ کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی وفاق کے ساتھ ممکنہ کھنچاتانی، دہشتگردی کی ہاتھوں پامال اس سرحدی صوبہ میں بدامنی کی نئی لہر کو جنم دے سکتی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گہرے سیاسی تضادات کی موجودگی میں ملک کی فضاؤں پہ تادیر سیاسی بے یقینی سایہ فگن رہے گی، جہاں پُرتشدد مظاہروں اور طاقتور فوج کی طرف سے کریک ڈاؤن کے واقعات میں بدستور اضافہ ہو گا کیونکہ جب تک پی ٹی آئی کی مقتدرہ کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوتی اس وقت تک جاری کشمکش کو ریگولیٹ کرنا دشوار ہو گا لیکن بظاہر خان اور فوج کے درمیان صلح بعید از امکان دیکھائی دیتی ہے، عمران خان اور آرمی چیف کے مابین ایک دوسرے کے لیے ناپسندیدگی اب بھی کافی حد تک قائم ہے چنانچہ اگلے دو سالوں تک فوج کی شکایات کو ایک طرف رکھنا مشکل ہو گا تاہم عمران خان کے خلاف درج مقدمات میں کافی سقم پائے جاتے ہیں جو اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے مزید جانچ پڑتال کے بعد جیل سے رہائی پا سکتے ہیں، اس صورت میں بھی عدلیہ اور مقتدرہ آمنے سامنے آ سکتے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین