ٹاپ سٹوریز
جج اگر تنقید کا اثر لیتا ہے تو حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے، جسٹس اطہر من اللہ
سپریم کورٹ کے جج، جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی آدھی تاریخ ڈکٹیٹرشپ میں گزری،ڈکٹیٹر شپ میں آزادی اظہار رائے ممکن ہی نہیں،آزادی اظہار رائے پر آغازسےہی قدغنیں لگائی گئیں،قائداعظم کی 11اگست 1947کی تقریرکے سینسرکرنےپرلامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔
سپریم کورٹ میں کورٹ رپورٹرز کے منعقدہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کسی خاتون یا بچے کی شناخت ظاہر کرنا یا غلط رپورٹنگ کرنا صحافتی قواعد کیخلاف ہے،کورٹ رپورٹرز سے میں نے بہت کچھ سیکھاہے،ذوالفقاربھٹو کےٹرائل میں اخبارات میں انہیں ملزم یا معصوم نہیں لکھا گیا تھا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ بحیثیت جج ہم اپنی کوئی چیز چھپا نہیں سکتے،عدلیہ پر دو قسم کی تنقید ہوتی ہے،ایک وہ تنقید جب الزام لگایا جاتا ہے کہ دانستہ طور پر کوئی فیصلے ہورہے ہیں،ایک وہ تنقید ہوتی ہے جسے میں پسند نہیں کرتا اس کو ریلیف کیوں ملا،وقت کے ساتھ سچائی خود سامنے آجاتی ہے،جج کو کسی قسم کی تنقید سےکبھی گھبرانا نہیں چاہئے،جج پر کتنی بھی تنقید ہواگر وہ کوئی اثرلیتا ہے تو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صحافیوں کا آزادی اظہار رائے کیلئے کلیدی کردار رہا ہے،صحافیوں نے آزادی اظہار رائے کیلئے کوڑے بھی کھائے،1971میں مغربی پاکستان کے لوگوں کو یکسر مختلف تصویر دکھائی گئی،بطور وکیل وکلا تحریک میں کورٹ رپورٹرزاورصحافیوں سے تعلق رہا ہے،سچ کو دبانےسے ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر ایک کو اپنے آپ سے سوال کرناچاہئے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں،کیا ہم اصول پر کھڑے ہیں یا دھڑےبندی کاشکار معاشرہ مرضی کا فیصلہ اور گفتگو چاہتا ہے،کوئی اگر غلط کہتا ہے تو وہ خود وقت کے ساتھ بے نقاب ہو جائےگا،بحیثیت جج ہم پبلک پراپرٹی ہیں،ٹیکنالوجی کا دور ہے،ریاستیں اظہاررائے کو قابو نہیں کرسکتیں،سچ ہر ایک کو معلوم ہے،75 سال سے پتہ ہے مگر اسے ہمیشہ دبانے کی کوشش کی،سچ کو 75سال تک دباتے ہوئے ہم یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔میرے بارے میں بھی کہا گیا واٹس ایپ پر کسی سے تعلق میں رہتے ہیں۔ہردور میں کسی نہ کسی نے مجھے 2 فلیٹ دلا دیئے،ان باتوں سے کیا مجھے کوئی فرق پڑا؟۔