تازہ ترین
زراعت اور پراپرٹی کو ٹیکس نیٹ میں نہ لائے تو سسٹم نہیں چلے گا، وفاقی وزیر خزانہ
ملک کیلئے 5 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری موجود ہے، اب ہمیں قابل سرمایہ اور منافع بخش پروجیکٹس شروع کرنے ہیں
وزیر خزانہ و محصولات محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ حکومت کا ہر صورت زراعت اور پراپرٹی پر ٹیکس لگانے کا ارادہ ہے، صوبے زراعت اور پراپرٹی کو ٹیکس نیٹ میں نہ لائے تو سسٹم نہیں چلے گا، صوبوں کو سوشل پروٹیکشن میں بھی حصہ ڈالنا ہوگا، وفاق کا اکھٹا کیا گیا ریونیو کا 60 فیصد صوبوں کو چلا جاتا ہے۔
آج نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ اس بجٹ کو ہمیں ایک روڈ میپ کے طور پر دیکھنا ہوگا، پاکستان ٹیکس ٹو جی ڈی پی ساڑھے نو فیصد کا متحمل نہیں ہوسکتا، ہمیں اسے 13 فیصد تک لے جانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ لوگ ٹھیک کہتے ہیں کہ نان فائلرز کی کیٹیگری کو ختم ہی کردیں، یہ دنیا کا واحد ملک ہوگا جس میں نان فائلرز کی اختراع ہے۔
انہوں نے اپنے بیان کو دہرایا کہ ہم نان فائلرز کیلئے قیمتوں کو اس انتہائی لیول تک لے گئے ہیں کہ وہ تین سے چار مرتبہ سوچیں گے ضرور کہ نان فائلر رہنا ہے یا نہیں، آنے والے سالوں میں ہم ”نان فائلرز“ کو ڈکشنری سے باہر کردیں گے۔
بجلی کے بل کم ہوں گے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس میں ٹائم لگے گا، آئیڈیا یہ ہے کہ ڈسٹریبیوشن کمپنیوں یعنی ڈسکوز کے بورڈ میں تعینات سیاسی لوگوں کو نکالا جائے اور پرائیویٹ سیکٹر کے لوگوں کو لایا جائے، اور بورڈ کی سربراہی پرائیویٹ سیکٹر کے فرد کو کرنی چاہئیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے صدارتی آرڈیننس کے زریعے ایسا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ چیلنج ہوگیا، اب یہ بل سینیٹ میں ہے اور پھر قومی اسمبلی میں جائے گا، لیکن قانون سازی میں وقت لگتا ہے، ہماری کوشش تھی کہ بورڈز میں یہ تبدیلی اسی وقت کردی جاتی جب ہم آئے تھے، تعیناتیوں کی نامزدگیاں بھی آگئی ہیں، سب کچھ تیار ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ بورڈز میں تبدیلی کی ضرورت اس لئے ہے کہ ہمیں ڈسکوز کو پرائیوٹائزیشن کی طرف لے جانا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ کوشش کر رہے ہیں کہ صنعتوں کیلئے گروس سبسڈی والا معاملہ کافی حد تک کنٹرول کیا جاسکے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈیجیٹل اکانومی کی طرف جانا ہے اور بہت اہم ہے، کیونکہ اس سال ہمارا آمدن کا ہدف 9.4 ٹریلین روپے تھا، ہم اس کے کافی قریب 9.3 ٹریلین روپے تک پہنچے بھی، لیکن اس کے مقابلے میں دیکھیں تو 9 ٹریلین روپے کیش گردش میں ہے اور سسٹم سے باہر ہے، اس پیسے کو اکنامی میں لانے کیلئے ڈیجیٹلائزیشن کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم جلد ہی اعلان کریں گے کہ وہ ڈیجیٹل انیشی ایٹیو کو آگے لے کر جا رہے ہیں اور اس کی سربراہی کیلئے پرائیویٹ سیکٹر سے کسی کو لایا جائے گا۔
بچوں کے دودھ پر ٹیکس لگانا اور پھر سرکاری افسران کی بھاری پنشنیں دینا آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس ملک میں 3.9 کھرب روپے کے استثنا ہیں، اور ہم نے ان میں سے کچھ استثنا ختم کیا ہے اور آئی ایم ایف نے اس پر رضا مندی ظاہر کی ہے اورکہا ہے کہ انہیں ختم کریں، لیکن جہاں ہمیں ضرورت ہے جیسے کھاد، کیڑے مار ادویات، خیراتی اسپتال، میڈیکل آلات اور اسٹنٹس وغیرہ پر ہم نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس پر استثنا ختم کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پنشن کا جو غیر فنڈڈ بوجھ ہے وہ بہت بڑا ہے، مسلح افواج کی پنشن میں تبدیلیاں اس لئے ایک سال آگے بڑھائیں کیونکہانہیں اپنے سروس اسٹرکچر پر کام کرنا ہے، ان کے کچھ لوگ 38 سال کی عمر میں ریٹائر ہوجاتے ہیں کچھ اس سے بھی کم پر ہوجاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے اور موجودہ اسکیم میں تبدیلیاں لے کر آئیں گے۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق صوبوں میں جو ایگریکلچر اور پراپرٹی ٹیکسز ہیں اس پر ہم نے صوبوں سے بات شروع کی ہے، وفاق کی کُل آمدن کا 59.5 فیصد صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کی صورت میں جارہا ہے، صوبوں سے ہم نے یہ بات کی ہے کہ اب یہ قابل برداشت نہیں ہے، جس کا مطلب ہے کہ اب آپ کو متحرک ہونا چاہئیے کیونکہ اگر آپ زراعت یا پراپرٹی کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لے کر آئے تو پائیدار نہیں رہے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح کچھ اخراجات کی حصہ داری ہے، جیسے کہ سوشل پروٹیکشن، یہ بھی کرنی ہوگی، صوبوں کو دے کر اور سود ادا کرکے باقی جو بھی ہم کر رہے ہیں سب ادھار لےکر کر رہے ہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں وزیراعظم کے ساتھ دو مرتبہ سعودی ولی عہد سے مل چکا ہوں، انہوں نے کہا کہ ملک کیلئے 5 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری موجود ہے، اب ہمیں یہ کرنا ہے کہ قابل سرمایہ اور منافع بخش پروجیکٹس شروع کرنے ہیں، پائپ لائن میں کئی چیزیں ہیں اور آپ کو خوشخبری ملے گی۔