خواتین

اگر مرد عورت کی عزت کرنا سیکھ جائے تو معاشرہ بہتر ہو سکتا ہے،انیس ہارون

Published

on

آرٹس کونسل پاکستان کے زیر اہتمام چارروزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے تیسرے روز ”خواتین کی جدوجہد اور چیلنجز“ کے عنوان سے سیشن آڈیٹوریم 1 میں منعقد کیا گیا۔ جس میں نظامت کے فرائض فضہ پتافی نے انجام دیے۔

شرکائے گفتگو میں انیس ہارون ،عائشہ میاں، عظمیٰ الکریم اور کشورناہید شامل تھیں۔

لڑکیوں کو بااختیار بنانے کے حوالے سے انیس ہارون نے اپنی زندگی کا قصہ کا بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں بہت خوش قسمت تھی کہ میرے والدین میرا سب سے بڑا سہارا بنے، انہوں نے مجھے آگے بڑھنے سے کبھی نہیں روکا ،میرے دادا نے بھی میرا بہت ساتھ دیا۔ اکثر لڑکیوں کے گھر والے تو ساتھ دے دیتے ہیں لیکن اصل مرحلہ شادی کے بعد شروع ہوتا ہے میں اس حوالے سے بھی خوش قسمت تھی میں ایسا جیون ساتھی چاہتی تھی جو میرے کام میں میری رکاوٹ نہ بنے بلکہ میرا ساتھ دے جن سے میری شادی ہوئی انہوں نے کبھی مجھے کہیں جانے سے نہیں روکا بلکہ اگر میں گھر پر نہیں ہوتی تھی تو وہ اکثر گھر کا کام بھی کردیتے تھے۔میں سمجھتی ہوں کہ اگر مرد عورت کی عزت کرنا سیکھ جائے تو یہ معاشرہ بہتر ہوسکتا ہے۔

عظمیٰ الکریم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ جب خواتین کام کے سلسلے میں باہر جاتی ہیں تو انھیں ہراسمنٹ کا نشانہ بنایاجاتا ہے لیکن ہمیں اپنی لڑکیوں کی تربیت ایسی کرنی چاہیے کہ وہ ایسی باتوں کو ایک کان سے سنیں اور دوسرے کان سے نکال دیں اور اس طرح کے چیلنجز کا بہادری سے مقابلہ کریں۔ سب سے پہلے تو والدین کو یہ سیکھنا ہوگا جب لڑکی گھر پر آکر اپنے والدین کو ہراسمنٹ کا بتائے تو گھر والے اس کے گھر سے نکلنے پر پابندی نہ لگائیں بلکہ اس کو بااختیار کریں اور یہ ہی چیزیں ہمارے اداروں میں بھی شامل ہونی چاہئیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کو بااختیار کرنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اپنے فیصلے خود لے سکیں۔جب لڑکیاں بااختیار ہوں گی تو ان میں خود اعتمادی بھی بڑھے گی۔

معروف شاعرہ کشور ناہید نے تنقیدی لہجے میں کہا کہ آج کے دور کی لڑکیاں پڑھ بھی رہی ہیں اور نوکری بھی کررہی ہیں لیکن وہ سیکھ کچھ نہیں رہیں، میں نے پندرہ لڑکیوں سے انٹرویوکیا میرا پہلا سوال تھا بنگلہ دیش کا دوسرا نام کیا ہے ،کسی نے بھی اس کا جواب صحیح نہیں دیا، میں یہاں بیٹھی ہر لڑکی سے درخواست کروں گی آپ نوکری کریں مگر کچھ تو سیکھیں۔ جب میں ریڈیومیں کام کررہی تھی تو میری امی اکثر کہتی تھیں یہ سید گھرانے کی لڑکی ہے جس گھرانے کی خواتین کی آواز کبھی مرد خانے تک نہیں جاتی تھی آج یہ لڑکی ریڈیومیں جاکراول فول بول کر آتی ہے۔ میں نے تب بھی ان کی بات پر دھیان نہیں دیا اور اپنی زندگی کے سارے فیصلے بااعتمادی کے ساتھ خود کئے۔ شادی کے بعد میرے شوہر نے میرا بہت ساتھ دیا میں جب بھی کسی پروگرام میں جاتی تو وہ اکثر میرے ساتھ جاتے تھے لیکن جب وہ نہیں جا پاتے تھے تو لوگ اکثر طعنہ مارتے تھے کہ تم نے بتایا ہی نہیں ہوگا۔ لوگوں کو اس بات پر بھی اعتراض تھا کہ میں نے شادی کے بعد بھی اپنا نام کشور ناہید ہی رکھا۔ جب بچے ہوئے تو میں نے سوچا کہ میں نوکری چھوڑ دوں لیکن ساتھ ہی میں نے یہ بھی سوچا کہ اگر میں نے نوکری چھوڑ دی تو مجھے ایک روپے کے لئے بھی اپنے شوہر کے آگے ہاتھ پھیلانا ہوگا پھر یہ ہاتھ سلام کرنا شروع ہوجائیں گے۔ آج کل کی لڑکیوں کی جب شادی ہوتی ہے تو یہ سوال آتا ہے کہ میں میک اپ کونسا کروں، پہنوں گی کیا، ایک ہی دن تو ہے، میں سمجھتی ہوں کہ ہم نے ذہن کی پرورش نہیں کی، فیشن کو زیادہ اہمیت دی، ہم ڈیزائن کے پیچھے بھاگتے ہیں۔

عائشہ میاں نے کہاکہ میں بچپن سے ہی کہانیوں میں دلچسپی لیتی تھی،میں ان کہانیوں میں بھی دلچسپی لیتی تھی جو کہانی ہمارا معاشرہ ہمیں سناتا ہے، جو ہمارے گھر والے ہمیں سناتے ہیں، میں اس چیز کی کھوج لگاتی تھی جو کہانیاں سنائی گئیں ہیں کیا واقعی حقیقت کا اس سے کوئی تعلق ہے، میں لڑکیوں سے اکثر کہتی ہوں کہ اپنے اندر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرو، جو سوچ معاشرے نے پیدا کی ہے اس کو چیلنج کرنا سیکھیں۔ ہمارے معاشرے میں 30 سے 40 فیصد لوگ انزائٹی اور ڈپریشن کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم معاشرے کی سوچوں کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم یہ سوچتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے،ہم نے اس بات کو اپنے اوپر حاوی کرلیا ہے۔ہماری ماﺅں کو لڑکوں کی تربیت پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ہراسمنٹ جیسے مسائل میں کمی آسکے کیونکہ جب تربیت اچھی ہوگی تو معاشرہ میں سدھار پیدا ہوگا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version