تازہ ترین

اگر ملی بھگت ہے تو بینچ میں بیٹھنے کا جواز نہیں، چیف جسٹس: ملی بھگت کی بات میں نے نہیں اٹارنی جنرل نے کی، جسٹس اطہر من اللہ

Published

on

اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی طرف سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی طرف سے عدالتی معاملات میں مداخلت سے متعلق لکھے گئے خطوط پر ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں جاری ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ کے ججز نے نشاندہی کی ہے کہ مداخلت کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت سے گزشتہ سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کرنے کی استدعا کی۔اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آ کر استدعا کی کہ از خود نوٹس کی گزشتہ سماعت کا تحریری حکمنامہ تاحال نہ مل سکا۔ عدالتی حکمنامے سے وزیراعظم آفس اور وزارت دفاع کو آگاہ کرنا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی حکمنامے پر تمام ججز کے دستخط ہو گٸے؟ چیف جسٹس نے عدالتی عملے کو چیف جسٹس کی باقی رہ جانے والے تین ججز سے دستخط لینے کی ہدایت کی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ آپ کو تیاری کے لیے مہلت چاہیے ہو گی جس پر اٹارنی جنرل نے کل تک کی مہلت مانگ لی۔

اٹارنی جنرل نے گزشتہ عدالتی کارروائی کا تحریری حکمنامہ پڑھنا شروع کیا تو چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ بھی تحریر کیا ہے، وہ بھی پڑھ لیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ میں کہا کہ ہائی کورٹ کے ججز نے نشاندہی کی کہ مداخلت کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ وفاقی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے اس دوران کہا کہ ’میں معذرت چاہتا ہوں میری لکھائی اچھی نہیں ہے۔‘ جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جی واقعی لکھائی اچھی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے وکلا سے دلائل کے لیے درکار وقت سے متعلق بھی استفسار کیا۔

دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سب مان رہے ہیں کہ مداخلت ہوتی ہے، فیض آباد دھرنا کیس فیصلے سے بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم نے 76سال جھوٹ بولا ، سچ کو چھپایا ہے۔ عوام کو سچ جاننے کا پورا حق ہے۔ تمام ہائی کورٹس نے چھ ججز سے بھی زیادہ سنگین جوابات جمع کرائے ہیں، ایک ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ مداخلت آئین کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ایک ہائیکورٹ نے تو یہ کہا ہے آئین کو سبوتاژ کیا گیا۔ یہ مداخلت نہ فیض آباد دھرنا کیس سے رکی نہ کسی اور چیز سے۔

پاکستان بار کونسل کے وکیل ریاضت علی نے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے معاملے پر پاکستان بار کونسل جوڈیشل تحقیقات کرانا چاہتی ہے۔ ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنا کر قصورواروں کو سزا دی جائے۔ سال 2018 اور 2019 میں ہائی کورٹس کا سب سے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کا مسائل پر خاموشی اختیار کرنا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ عدالت ایسا کیا طریقہ اختیار کرے کہ عدلیہ میں مداخلت کا رجحان ختم ہو۔ سال 2018 میں اٹارنی جنرل نے مداخلت کا حوالہ دیا تھا،اُس وقت ہائی کورٹ ججز کے لیے مشکل یہ تھی کہ مداخلت سپریم کورٹ کی ملی بھگت سے ہو رہی تھی۔

وکیل پاکستان بار نے عدالت کے روبرو کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے سنگین الزامات لگائے ہیں جو جرم کے زمرے میں آتے ہیں۔ جرم فوجداری نوعیت کا ہے ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ تنقید کرنے اور جھوٹ بولنے میں بہت فرق ہے۔ ایک کمشنر(راولپنڈی) نے جھوٹ بولا اور تمام میڈیا نے اس جھوٹ کوچلایا۔ کسی نے نہیں پوچھا کیا آپ کے پاس کوٸی ثبوت ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس میں مزید کہا ہے کہ کیا پاکستان بے لگام ہے ، کیا ہمیں کوٸی نہیں روک سکتا؟سپریم جوڈیشل کونسل آئینی ادارہ ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کا چیئرمین ضرور ہوں لیکن میں پوری کونسل نہیں۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے ارکان بنچ میں ہیں لیکن تین نہیں۔

صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے دلائل میں کہا کہ مداخلت میں عدلیہ کی ملی بھگت قرار دینے سے عدالت کا وقار کم ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ملی بھگت ہے تو بنچ میں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ملی بھگت کی بات میں نے نہیں اٹارنی جنرل نے کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سوشل میڈیا پر ایک بمباری ہوتی ہے جس پر شہزاد شوکت نے کہا کہ ہم نے اپنی تمام پریس کانفرنس میں سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کی مذمت ہے اور اب ایک اتھارٹی بھی بن گئی ہے لیکن صحافی میرے پاس آ کر کہتے ہیں اظہارِ رائے پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ سوشل میڈیا پر فیئر تنقید ہونی چاہیئے، لیکن لوگوں کو گمراہ نہیں کرنا چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تین نومبر 2007 کا اقدام سب سے بڑی توہین عدالت تھی لیکن اس پر کسی کو سزا نہیں ملی۔ آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ایک ڈسٹرکٹ جج مداخلت کے خلاف آواز اٹھائے گا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version