ٹاپ سٹوریز
’ مثالی ڈار بجٹ، ٹیکس دینے والے کو سزا دو،رئیل سٹیٹ کو ریلیف، آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوتا نظر نہیں آتا‘ ماہرین
مالی سال 2023۔24 کے بجٹ کے لیے معاشی مشکلات کی شکار حکومت عوام کو بھی خوش رکھنا چاہتی تھی اور ٹیکس آمدن بھی بڑھانا چاہتی تھی، لیکن بجٹ شاید کسی کی بھی توقعات پر پورا نہیں، اس بجٹ پر معاشی ماہرین، کاروباری طبقے اور تجزیہ کاروں کی رائے بھی زیادہ موافق نظر نہیں آئی۔
پاکستان میں کاروبار اور تجارت کے لیے مختص واحد انگریزی اخبار بزنس ریکارڈر میں صفحہ اول پر شائع تجزئیے میں علی خضر نے لکھا کہ اس بجٹ پر ایک کاروباری شخصیت نے کہا کہ یہ مثالی ڈار بجٹ ہے جس میں کچھ عوامی فلیور بھی ہے، کوئی بھی شخص جو قانونی طریقے سے رقم بناتا ہے اور کاروبار کو بڑھاوا دینا چاہتا ہے اسے سزا دو، یہ ہے ڈار کا فلسفہ زندگی۔
علی خضر لکھتے ہیں کہ چند لوگوں کو ریئل سٹیٹ پر ٹیکس عائد کئے جانے کی توقع تھی( اگرچہ یہ صوبائی معاملہ ہے) لیکن اس کے برعکس یوں لگتا ہے کہ اس طبقے کے لیے کچھ ریلیف ہوگا، وزیر خزانہ کی تقریر میں ریٹیلرز اور ہول سیلرز پر ٹیکس لگانے کا عزم صفر تھا، یہ طبقہ مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک تصور ہوتا ہے۔ زرعی شعبے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے بھی کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔
علی خضر نے لکھا کہ ڈار کی تقریر انتہائی ور کرنے والی تھی جو ان کے خیال میں ان کے سنہرے دنوں سے شروع ہوئی، ڈار 2018 سے 2022 کے عرصے کی پالیسیوں کو معاشی تباہی کی وجہ قرار دیتے ہیں لیکن یہ سب ان کی وزارت میں شروع ہوا، ڈار اور ان کی ٹیم پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں پر مزید ٹیکس سے آگے کچھ سوچ نہیں سکتے سوائے اس کے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کو کچھ سبسڈیز دیں اور بینکوں کے منافع پر ٹیکس لگائیں۔ معیشت کا سب سے بڑا شعبہ ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر ہے، دوسرا بڑا شعبہ لائیو سٹاک ہے جو زیادہ تر غیردستاویزی ہے۔ اس کے بعد کنسٹرکشن اور ریئل سٹیٹ ہے اور یہ سب جی ڈی پی کا نمایاں حصہ ہی نہیں ہیں۔
بزنس ریکارڈر کے صفحہ اول پر شائع ایک اور تبصرے میں انجم ابراہیم لکھتی ہیں بجٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی 284 روپے کی قدر کا استعمال کیا گیا جو آج کے مارکیٹ ریٹ کے قریب ہے تاہم اسلام آباد میں مقیم آئی ایم ایف کی نمائندہ کا کہنا ہے کہ تین پیشگی شرائط پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے 9واں جائزہ رکا ہوا ہے اور اس میں روپے کی قدر کا معاملہ بھی شامل ہے، حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت کیسے کہہ سکتی ہے اس نے تمام شرائط پوری کردی ہیں،بجٹ سے پہلے وزیراعظم نے کہا کہ انہیں امید ہے سٹاف لیول معاہدہ ہفتوں کے اندر ہوجائے گا
اسحاق ڈار نے آنے والے وزیر خزانہ کے لیے بجٹ اخراجات اور ریونیو اہداف ایسے طے کر کے چھوڑے ہیں جن کے ساتھ آئی ایم ایف کا نیا پروگرام لینا ممکن نہیں ہوگا اور جاری پروگرام کی بحالی بھی نظر نہیں آتی۔
ماہر معیشت قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ اس مشکل وقت میں حکومت اضافی ٹیکس اکٹھا نہیں کرسکتی، اسے اخراجات کم کرنا ہوں گے، آئی ایم ایف پاکستان سے کچھ سیاسی رعایتیں طلب کر رہا ہے،اسی لیے قرض پروگرام کی قسط لٹکی ہوئی ہے،اس وقت روپے کی قدر پر بات رکی ہوئی ہے۔