ٹاپ سٹوریز
کیر تھر نیشنل پارک میں آئی بیکس کی اموات پر لیبارٹریز میں تحقیقات شروع
نیشنل کیرتھرپارک میں مرنے والے سندھ آئی بیکس سے حاصل کردہ نمونوں کے ذریعے تحقیق وتجزیے کا آغازکردیاگیا۔
کنزرویٹرسندھ وائلڈ لائف جاوید مہر کے مطابق نیشنل کیرتھرپارک میں آئی بیکس کی اموات کے حوالے سےکراچی اورٹنڈوجام کے دولیبارٹریزکی تحقیق وتجزیے کا عمل جاری ہے،7 ايکڑ سے زائد رقبے پر پھیلے 500 سے زیادہ حیاتیاتی تنوع کے مسکن کھیرتھر نیشنل پارک کی ایک صرف لوکیشن پرسندھ آئی بیکس کی اموات رپورٹ ہوئی،جن کے باڈی کے سیمپلزکے ذریعے اموات کی تحقیق ہورہی ہے۔
جاوید مہر کے مطابق سائنسی بنیادوں پر حاصل شدہ نتائج کی رو سے اقدامات یقینی بنائےجائیں گے،ان کا کہنا ہے کہ نیچرل ایکوسسٹم ایک انتہائی پیچیدہ کمپلیکس کی طرح ہوتاہے،امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں انکے قومی پرندے "بالڈ ھیڈیڈ ایگل” کو نیچرل ایکوسسٹم میں درپیش مسائل پر تحقیق و اقدامات میں کئی سال لگے،نیشنل پارک کا وسیع علاقہ کسی وبائی یا ایپیڈیمک صورتحال سے محفوظ ہے،بنا کسی لیبارٹری تجزیہ و مسکن کے جائزے کے وبائی بیماری جیسی قیاس آرائیوں سےگریز کیا جانا چاہیے۔
جاوید مہر نے کہا کہ نیشنل پارک کی صدیوں سے رہنے والی کمیونٹیز اپنے قدرتی وسائل کی حفاظت کے لیے سائنسی وسماجی تجربوں سے آگاہ ہیں،سندھ وائلڈ لائف اس عزم کا اظہارکرتی ہے کہ نیشنل پارک کے مسکن و حیاتیاتی تنوع کو لاحق خطرات اور درپیش چیلنجز کا مقابلہ کیا جائیگا۔
جاوید مہرکا مزید کہناہے کہ سندھ وائلڈ لائف کی ٹیم کومردہ آئی بیکس کے 10سے12شواہد ملے ہیں،یہ سارے شواہد انتہائی اونچائی پرپانی کے ایک ذخیرے کے قریب 4گھنٹے کی مسافت پرملے ہیں،مگران اموات کے بارے میں قطعی طورپریہ بات نہیں کہہ سکتے کہ یہ کسی بیماری کا شکارہوئے ہیں،ان جانوروں موت انتہائی اونچائی پرطبعی طورپرہوئی ہے۔
نیشنل کیرتھرپارک سمیت دنیا بھرکے اس قسم کے حیاتیاتی تنوع کے مقامات یا جنگلات میں مشاہدے کے دوران ڈھانچے دیکھنے کو ملتے ہیں،ان اموات میں کسی جسمانی بیماری کےعلاوہ سانپ کے ڈسنے جیسے عوامل کارفرما ہوتے ہیں،چند سال قبل ایک سروے کے دوران کیرتھرکے پہاڑی سلسلے میں 30ہزارسے زائد آئی بیکس رپورٹ ہوچکے ہیں۔