دنیا
ایران جنگ شروع نہیں کرے گا لیکن کوئی ملک دھونس دیتا ہے تو اسے سخت جواب دیا جائے گا، صدر ابراہیم رئیسی
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے جمعہ کو کہا کہ ان کا ملک جنگ شروع نہیں کرے گا لیکن جو بھی اسے دھونس دینے کی کوشش کرے گا اسے "سخت جواب” دیا جائے گا۔
رئیسی کا بیان ان قیاس آرائیوں کے بعد سامنے آیا ہے کہ گزشتہ ہفتے کو ایران کے حمایت یافتہ گروپ کی طرف سے اردن میں ان کے اڈے پر حملے میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد واشنگٹن کس طرح جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔
سی بی ایس نیوز نے امریکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے جمعرات کو اطلاع دی ہے کہ امریکہ نے عراق اور شام میں متعدد اہداف کے خلاف کئی روزہ حملوں کے منصوبوں کی منظوری دے دی ہے،اہداف میں ان ممالک میں ایرانی اہلکار اور تنصیبات بھی شامل ہیں۔
رئیسی نے ایک ٹیلی ویژن تقریر میں کہا، "ہم کوئی جنگ شروع نہیں کریں گے، لیکن اگر کوئی ہمیں دھونس دینا چاہتا ہے تو اسے سخت جواب دیا جائے گا۔”
رئیسی نے کہا، "پہلے، جب وہ (امریکی) ہم سے بات کرنا چاہتے تھے، انہوں نے کہا کہ فوجی آپشن میز پر ہے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ ان کا ایران کے ساتھ تصادم کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔”
رئیسی نے مزید کہا کہ "خطے میں اسلامی جمہوریہ کی فوجی طاقت کسی بھی ملک کے لیے خطرہ نہیں ہے اور نہ کبھی رہی ہے۔ بلکہ یہ سلامتی کو یقینی بناتی ہے کہ خطے کے ممالک اس پر بھروسہ اور اعتماد کر سکیں،”۔
چار امریکی حکام نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ امریکہ نے اندازہ لگایا ہے کہ جس ڈرون نے اس کے تین فوجیوں کو ہلاک اور 40 سے زیادہ افراد کو زخمی کیا تھا، وہ ایران نے بنایا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ ایران کے پاسداران انقلاب سینئر افسران کو شام سے نکال رہے ہیں۔
ایرانی مشیر شام اورعراق میں مسلح گروپوں کی مدد کرتے ہیں جہاں امریکہ کے تقریباً 2500 فوجی ہیں اور شام میں جہاں اس کے 900 فوجی ہیں۔