Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

کیا ملکی سیاست 2002 ء میں جی رہی ہے؟

Published

on

نو مئی کے واقعات کے  بعد سیاسی وابستگی کی  تبدیل کا عمل معمولی سے وقفے کے دوبارہ شروع ہو گیا ہے اور اب  روپوش سابق وزیر مملکت فرخ حبیب نے بھی تحریک انصاف کو الوداع کہہ دیا اور استحکام پارٹی میں شامل ہو گئے۔ فرخ حبیب بھی اُسی قطار میں کھڑے ہو گئے جس میں اُن کی سابق جماعت کے دیگر ساتھی کھڑے ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنماؤں کی  استحکام پارٹی میں شمولیت اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ استحکام پارٹی آنے والے دنوں میں وہی کردار ادا کرسکتی ہے جو ماضی میں کنگز پارٹی مسلم لیگ قاف نے ادا کیا تھا. بیس برس پہلے مسلم  لیگ قاف کو تخلیق کیا گیا اور پھر عام انتخابات میں یہ جماعت اقتدار میں آئی۔

مسلم لیگ قاف میں شامل ہونے والوں میں وہی رہنما تھے جو کسی نہ کسی وجہ سے مسلم لیگ نون سے ناراض تھے یا پھر انہوں نے بھی مسلم لیگ نون کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ یہ وہی مسلم قاف تھی جس میں مسلم لیگ نون کے سابق وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین کو وزیر اعظم بننے کا موقع ملا. مسلم لیگ قاف کی حکومت نے پہلی مرتبہ پانچ سال کی مدت پوری کی البتہ اس معیاد کے دوران تین وزرااعظم  بھی مسلم لیگ قاف کے منتخب ہوئے۔ اس جماعت کا دو ہزار آٹھ کے بعد سیاسی زوال شروع ہوگیا اور پھر آہستہ آہستہ سکڑتی گئی اور 2018 میں قائم ہونے والے قومی اسمبلی میں ارکان کی تعداد آدھ درجن سے بھی کم ہوگئی تھی۔

اب پھر اُسی طرز میں نئی جماعت میں سیاسی رہنماؤں کی شمولیت ہو رہی ہے اور ابھی یہ سلسلہ کہاں تک جاتا ہے اس بارے میں ابھی کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی۔ نئی جماعت میں شمولیت کا سلسلہ دوبارہ ایک ایسے وقت میں شروع ہوا ہے جب سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ نون کے قائد نواز شریف 21 اکتوبر کو ملک واپس آ رہے ہیں اور مسلم لیگ نون یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش میں ہے آئندہ حکومت مسلم لیگ نون کی ہوگی اور نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنیں گے۔

نواز شریف کی واپسی کا اعلان  ایک ایسے وقت پر ہوا  جب سپریم کورٹ کا فل کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے بارے میں درخواستوں پر سماعت کر رہا تھا اور پھر اس بنچ نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے کثرت رائے سے درخواستیں خارج کر دیں لیکن اس قانون کے ذریعے ماضی سے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق دینے کی حد قانون کو کالعدم قرار دے دیا. اس طرح نواز شریف بھی سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہلی سزا کیخلاف اپیل دائر کرنے کے حق سے محروم ہو گئے جو بظایر مسلم لیگ نون کیلئے ایک بڑا دھچکا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان سمیت سات ججز اس حق میں تھے کہ اپیل کا حق ماضی سے ہونا چاہیے لیکن 8 ججز نے اس کے کیخلاف فیصلہ دیا۔

اس فیصلے کے فوری بعد مسلم لیگ نون اور ان کیلئے نرم گوشہ رکھنے ماہرین قانون نے یہ دلیل دینا شروع کر دی کہ اس سے فیصلے سے نواز شریف کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نواز شریف کی سزا الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی وجہ سے ختم ہوگئی ہے۔ یہ قانونی نکتہ اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا سپریم کورٹ کی تشریح کو کسی نئی قانون سازی سے ختم کیا جاسکتا ہے یا نہیں اس پر ماہرین قانون دو حصوں میں تقسیم ہیں اوراس نکتہ کا بھی فیصلہ سپریم کورٹ ہی کرے گی جب اس کے روبرو زیر سماعت آئے گا۔

ابھی تو یہ قانونی نکتہ غور طلب ہے کہ کیا نواز شریف وطن واپسی پر گرفتار ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ مسلم لیگ نون کے قانونی مشیر اس بارے میں سوچ بچار  مصروف ہیں کہ اپنے قائد کی گرفتاری کو کس طرح ٹالا جاسکتا ہے؟  نواز شریف کی حیثیت کسی عام ملزم کی جیسی نہیں ہے بلکہ وہ دو مختلف ریفرنسز میں سزا یافتہ ہیں اور ان کی سزا کیخلاف اپیلوں پر کارروائی  اس وجہ سےآگے نہیں بڑھ سکی کہ وہ بیرون ملک تھے اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے انکو مفرور قرار دیکر ان کی اپیلوں پر کارروائی نہیں کی۔ اس طرح اب نواز شریف کو خود کو عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کی ضرورت ہے۔ نواز شریف اور اُن کے سمدھی اسحاق ڈار بلکہ بھتیجے سیلمان شہباز کے معاملے کا معاملہ ان کے معاملے سے بالکل مختلف ہے۔ اسحاق ڈار اور سیلمان شہباز کو کسی عدالت سے سزا نہیں ہوئی تھی اور یہ دونوں ایک ایسے وقت میں وطن آئے جب مسلم لیگ نون کی اپنی حکومت تھی۔

نواز شریف کے وکلا  کیلئے ایک قانونی راستہ یہ ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم کی سزا کی معطلی کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کریں جس میں نواز شریف کے سرنڈر کرنے کی اجازت دینے کی بھی استدعا کی جائے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ اس پر کیا فیصلہ کرتی ہے اس سے ہی صورت حال واضح ہوگی۔  نواز شریف کے انتخابات میں حصہ لینے کی سب باتیں اسکے بعد کی ہیں۔

ویسے تو جیل میں رہ کر بھی عام انتخابات لڑنے کی کئی مثالیں ہیں لیکن یہ سب وہی سیاسی لوگ تھے جن کو سزا نہیں ہوئی تھی اور الزام ہونے اور اس کے ثابت ہونے پر سزا ہونے میں فرق ہے۔ شائد اسی وجہ سے یہ قیاس آرائیاں بھی محدود سطح پر ہو رہی ہیں کہ اس مرتبہ مائنس ون نہیں مائنس ٹو بھی ہوسکتا ہے یعنی عمران خان اور نواز شریف دونوں ہی انتخابی معرکے سے باہر ہونگے۔

ملکی تاریخ میں مائنس ٹو کی مثال بھی ہے جب 2002 میں دو، دو مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے دو قد آور سیاست دان بینظیر بھٹو اور نواز شریف دونوں ہی 2002 کے انتخابات میں شامل نہیں تھے. ان دونوں سیاسی رہنماؤں کے بغیر ہی قومی اسمبلی وجود میں آئی. پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹرین کا لاحقہ لگا کر نئی جماعت کے نام سے انتخاب لڑا جبکہ مسلم لیگ نون کی باگ دوڑ جاوید ہاشمی نے قائم مقام سربراہ کے طور پر سنبھالی تھی.

اسی طرح 2007 میں بھی نواز شریف ملک میں تو تھے۔ ان کی جماعت مسلم لیگ نون نے عام انتخابات میں حصہ لیا اور نواز شریف نے جلسے بھی کیے لیکن انتخاب نہیں لڑا۔ اس طرح وہ 2008 میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کا حصہ نہیں بنے۔ اس وقت بھی نواز شریف کو قانونی طور پر مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا ہے جس کیلئے قانونی جنگ بظاہر آسان نہیں ہے  لیکن معجزہ تو کسی وقت بھی ہوسکتا ہے۔

عباد الحق گزشتہ 30 برس سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ آپ بی بی سی سمیت ملکی و بین الاقوامی صحافتی اداروں سے منسلک رہے ہیں جہاں آپ سیاسی و عدالتی امور کو کور کرتے رہے ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ ترین12 گھنٹے ago

اولمپکس کی افتتاحی تقریب سے پہلے فرانس میں ٹرین نیٹ ورک پر حملے

تازہ ترین13 گھنٹے ago

جماعت اسلامی نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں مختلف مقامات پر دھرنا دے دیا، مذاکرات کے لیے تیار ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات

تازہ ترین14 گھنٹے ago

صدر مملکت نے سپریم کورٹ میں دو ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی

پاکستان14 گھنٹے ago

عمران خان کی رہائی کے لیے پی ٹی آئی جیل بھرو تحریک شروع کرے، دو گھنٹے کی بھوک ہڑتال مذاق ہے، نثار کھوڑو

تازہ ترین16 گھنٹے ago

ہمارے نام پر ڈالر لے کر وسائل کھائے گئے، بطور وزیراعلیٰ اعلان کرتا ہوں صوبے میں کہیں بھی آپریشن نہیں کرنے دوں گا، علی امین گنڈا پور

پاکستان16 گھنٹے ago

رومانیہ میں پاکستان نیوی کے آف شور پٹرول ویسل پی این ایس حنین کی کمیشننگ تقریب

تازہ ترین18 گھنٹے ago

کراچی میں رات کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی، نیپرا نے کے الیکٹرک کو ہدایت جاری کردی

پاکستان18 گھنٹے ago

پنجاب میں متوفی سرکاری ملازمین کے اہل خانہ کو ملازمت دینے کا قانون ختم

مقبول ترین