Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل، عمران خان کی فوری رہائی کا حکم

Published

on

سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔عدالت نے عمران خان کو ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ان کی نظر میں عمران خان کی گرفتاری قانون کے مطابق نہیں۔

آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی، چیف جسٹس کا عمران خان سے مکالمہ

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ  تین رکنی بینچ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دینے کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت کی۔

اس سے پہلے سپریم کورٹ نے عمران خان کو ساڑھے چار بجے عدالت پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اسلام آباد پولیس کو عمران خان کو ساڑھے چار بجے پیش کرنے کا حکم دیا تھا، پولیس ایک گھنٹہ تاخیر سے عمران خان کو لے کر عدالت عظمیٰ پہنچی۔

کل اسلام آباد ہائیکورٹ دوبارہ سماعت کرے، چیف جسٹس

عمران خان کو 15 گاڑیوں کے قافلے میں سپریم کورٹ پہنچایا گیا۔ آئی جی اسلام آباد چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ عدالت عظمیٰ پہنچے۔عدالت نے کیس کی سماعت کا دوبارہ آغاز کیا تو کمرہ عدالت کو بند کردیا گیا۔چیف جسٹس نے عمران خان کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے۔عدالت نے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انکی فوری رہائی کا حکم دیا۔سپریم کورٹ نے عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے دوبارہ رجوع کرنے کا حکم دے دیا۔

عمران خان کو پرتشدد مظاہروں کی مذمت کی ہدایت

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب ایک شخص کورٹ آف لا میں آتا ہے تو مطلب کورٹ کے سامنے سرنڈر کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ 8 مئی کو کورٹ میں بائیو میٹرک روم میں موجود تھے۔چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کل کیس کی سماعت کرے، ہائی کورٹ جو فیصلہ کرے وہ آپ کو ماننا ہوگا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر سیاستدان کی ذمہ داری ہے کہ امن و امان کو یقینی بنائے۔ چیف جسٹس نے عمران خان سے یہ بھی کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ آپ پرتشدد مظاہروں کی مذمت کریں

عدالت کا تقدس پامال کیا گیا

سماعت کا آغاز ہواتو عمران خان کے وکیل حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان ضمانت کیلئے ہائیکورٹ گئے،بائیو میٹرک کے وقت کمرے کے شیشے توڑ کر عمران خان کو گرفتار کیا گیا۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری کیسے ہوسکتی ہے،نیب نے گرفتار کرنا بھی تھا تو رجسٹرار ہائیکورٹ کو اطلاع دی جاتی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بائیو میٹرک کے بغیر کیا ضمانت کی درخواست دائر ہوسکتی ہے؟

عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ بائیو میٹرک کے بغیر درخواست عدالت میں دائر نہیں ہوسکتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری سے عدالت کا تقدس کہاں گیا،ہائیکورٹ کے اندر اتنی زیادہ سکیورٹی لاکرعدالتی تقدس کا خیال نہیں رکھا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ انصاف تک رسائی کے حق دیکھنا ہے،ہر شہری کو انصاف تک رسائی کا حق حاصل ہے،ہم یہاں صرف اصول و قواعد اور انصاف تک رسائی کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں،سیاسی حالات کیوجہ سے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے بہت افسوسناک ہے،ہائیکورٹ کے تقدس کا معاملہ بھی سپریم کورٹ دیکھے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج دیکھا میانوالی ڈسٹرکٹ جیل کو آگ لگا دی گئی۔ اس وکیل تحریک انصاف شعیب شاہین نے جواب دیا کہ جو کچھ ہورہا اس کی مذمت کرتے ہیں،صرف مزمت کرنے سے کام نہیں ہوگا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی رہنماؤں کو چاہیئے حالات کو فوری کنٹرول کریں،انصاف تک رسائی اور عدالتی تقدس بنیادی حقوق میں شامل ہیں،انصاف تک رسائی کے حق اور عدالتی تقدس کے بارے میں اٹارنی جنرل سے پوچھتے ہیں،سیف الرحمان کیس میں احاطہ عدالت کے تقدس بارے حکم جاری کر چکے ہیں۔

کیس کی تیاری نہیں کرسکا، ڈپٹی پراسیکوٹر مزید بتائیں گے، پراسیکیوٹر جنرل نیب

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انصاف لینے کیلئے شہری عدالت داخل ہوجائے تو اسے گرفتار نہیں کیا جاسکتا، 80 سے 100 رینجرز اہلکار جب ہائیکورٹ داخل ہوتے ہیں تو خوف کی فضا قائم ہوتی ہے۔کیا نیب نے گرفتاری سے قبل رجسٹرار ہائیکورٹ سے اجازت لی تھی؟

اس پر پراسیکیوٹرجنرل نیب نے کہا کہ نیب نے صرف وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور وزارت داخلہ کو خط لکھا،وزارت داخلہ نے نیب کے وارنٹ گرفتاری پر عملدرآمد کرایا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا آپکے مطابق وزارت داخلہ نے گرفتاری کی اور نیب نے یہ گرفتاری نہیں کی؟ اس سوال پر پراسیکوٹر جنرل نے دفاعی رویہ اپناتے ہوئے کہا کہ وہ کیس کی تیاری نہیں کر سکے، اس بارے میں ڈپٹی پراسیکیوٹر مزید آگاہ کر سکتے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے پراسیکیوٹر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بات کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔

نیب افسران پہلے بھی احاطہ عدالت سے ملزم گرفتار نہ کرنے کی یقین دہانی پر بچے تھے

اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کے بعد دلائل دیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب وارنٹ کا مسئلہ نہیں، مسئلہ وارنٹ پرتعمیل کے طریقہ کار کا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ عدلیہ کے احترام کا ہے،نیب نے ایک ملزم سپریم کورٹ کی پارکنگ سے گرفتار کیا تھا،عدالت نے گرفتاری واپس کروائی اور نیب کیخلاف کاروائی ہوئی،نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی آئندہ ایسی حرکت نہیں ہوگی۔نیب کی اس یقین دہانی پر نیب افسران توہین عدالت سے بچے تھے،عمران خان کو کتنے لوگوں نے گرفتار کیا تھا؟

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ 80 سے 100 لوگوں نے عمران خان کو گرفتار کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 100رینجرزعدالتی احاطے میں آئے تو عدلیہ کا احترام کہاں گیا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں۔ حامد خان ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ عمران خان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔

انکوائری کی سطح پر گرفتاری نہیں ہو سکتی

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں سرنڈر کرنے والے کو گرفتار کیا جائے تو کوئی عدلیہ پر اعتماد نہیں کرے گا۔ وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان کو گھر یا عدالت کے باہر سے گرفتار کیا جاتا تو آج یہاں نہ ہوتے،حامد خان نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ کوئی کارکن یا جھتہ عدالت میں نہیں تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا نیب نوٹس کا جواب دیا گیاتھا۔ عمران خان کے وکیل نے بتایا کہ نیب نوٹس کا جواب دیا گیا تھا۔قانون کے مطابق نیب انکوائری کی سطح پر گرفتاری نہیں ہو سکتی،وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ گرفتاری کے بعد معلوم ہوا یکم مئی کو وارنٹ جاری ہوا تھا، سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایاکہ وارنٹ ابھی تک عملدرآمد کیلئے موصول نہیں ہوئے تھے۔

نیب وارنٹ عمران خان نے چیلنج ہی نہیں کیے

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سیاسی قیادت سے عدالتی پیشی پر بھی اچھے ردعمل کی توقع کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ گرفتاری کے بعد سے جو ہوا اسے روکنا چاہیے تھا،اس کا مطلب یہ نہیں غیر قانونی اقدام سے نظر چرائی جاسکے،ایسا فیصلہ دینا چاہتے ہیں جس کا اطلاق ہر شہری پر ہوگا، انصاف تک رسائی ہرملزم کا حق ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا عمران خان شامل تفتیش ہوئے تھے،

شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان نے نوٹس کا جواب نیب کو بھجوایا تھا،نیب کا نوٹس غیر قانونی تھا،جسٹس محمد علی مظہر نے نکتہ اٹھایا کہ نیب وارنٹ تو عمران خان نے چیلنج ہی نہیں کئے تھے،عمران خان نیب میں شامل تفتیش کیوں نہیں ہوئے۔ عمران خان کے وکلا نے بتایا کہ نوٹس کا جواب دیا گیا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا نیب نوٹس میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا کہا گیا تھا،قانون پر عمل کی بات سب کرتے ہیں لیکن خود عمل کوئی نہیں کرتا،سب کی خواہش ہے کہ دوسرا قانون پر عمل کرے،واضح ہے کہ عمران خان نے نیب نوٹس پر عمل نہیں کیا،نیب نے ماضی میں جو کچھ کیا سب کے سامنے ہے،نیب سیاسی انجینئرنگ کیلئے استعمال ہوتا رہا ہے، سپریم کورٹ سمیت کئی عدالتیں نیب کے بارے میں جو کہہ چکی ہیں دہرانا نہیں چاہتا۔ پ

راسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں،نیب نے کئی سالوں سے سبق نہیں سیکھا،نیب نے ملک کو بہت تباہ کیا ہے۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر نے کہا کہ  عمران خان کا کنڈکٹ بھی دیکھیں ماضی میں مزاحمت کرتے رہے،نیب کو جانوں کے ضیاء کا خطرہ تھا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق تو نیب کے وارنٹ کی تعمیل کا طریقہ کار وفاقی حکومت نے طے کیا،کیا گرفتاری کے وقت نیب کا کوئی افسر موجود تھا؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جسٹس محمد علی مظہر قانون پر عملدرآمد کی بات کر رہے ہیں،اصل معاملہ انصاف کی حد تک رسائی کا ہے،کیا عدالتی کمرے میں عمل درآمد وزرات داخلہ نے کیا، ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر نے کہا کہ وارنٹ پر کوئی نجی شخص بھی تعمیل کروا سکتا ہے۔نیب خود بھی اپنے وارنٹس پرعمل کرواتا رہتا ہے۔

نیب نے وارنٹ تعمیل سے لاتعلقی کا اظہار کردیا، چیف جسٹس

حامد خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ عمران خان کے ساتھ 9 مئی کو کارکنان یا جتھہ عدالت نہیں آیا تھا،شعیب شاہین نے کہا کہ جس طریقے سے ہائیکورٹ سے گرفتاری کی گئی اب کوئی کہیں بھی محفوظ نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نیب نے وارنٹ کی تعمیل سے لاتعلقی کا اظہار کردیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اختیار کیا کہ کسی قانون کے تحت رجسٹرار سے اجازت لینے کی پاپندی نہیں تھی۔ اس پر جسٹس اطہرمن اللہ نے سوال کیا کہ کیا شیشے اور دروازے توڑے گئے؟۔ضابطہ فوجداری کی دفعات 47 سے 50 تک پڑھیں،بائیو میٹرک برانچ کی اجازت کے بغیر بھی شیشے نہیں توڑے جاسکتے۔

عمران خان کو کہیں اور گرفتار کرنا ممکن نہیں تھا، ایڈووکیٹ جنرل

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو کہیں اور گرفتار کرنا ممکن نہیں تھا،عمران خان ہر پیشی پر ہزاروں افراد کو کال دیتے تھے۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا نیب نے عدالت کے اندر سے گرفتاری کا کہا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ عمران خان کو کتنے نوٹس جاری کئے گئے تھے۔ نیب کے پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بظاہر نیب کے وارنٹ قانون کے مطابق نہیں تھے،کیا وارنٹ جاری ہونے کے بعد گرفتاری کی کوشش کی گئی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ یکم مئی کو وارنٹ جاری ہوئے 9 کو گرفتاری ہوئی،آٹھ دن تک نیب نے گرفتاری کی خود کوشش کیوں نہیں کی، کیا نیب عمران خان کو عدالت سے گرفتار کرنا چاہتی تھی؟وزارت داخلہ کو آٹھ مئی کو خط کیوں لکھا گیا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب نے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے لیے پنجاب حکومت کو کیوں نہیں کہا،عمران خان تو لاہور میں رہائش پذیر تھے ،عمران خان کی گرفتاری کو وہیں سے ریورس کرنا ہوگا جہاں سے ہوئی تھی۔

نیب نے سارا الزام وفاقی حکومت پر ڈال دیا

ایڈووکیٹ جنرل نے اعتراف کیا کہ شیشے توڑ کر غلط کام کیا گیا،عمران خان کی درخواست ضمانت ابھی دائر ہی نہیں ہوئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ موجودہ حکومت سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ بھی یہ کرے گی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیب آزادہ ادارہ ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب نے سارا الزام وفاقی حکومت پر ڈال دیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیب نے 8 مئی کو رینجرز تعینات کرنے کی درخواست کی تھی۔نیب کی رینجرز تعینات کرنے کی درخواست وارنٹس پر عملدامد کیلئے نہیں تھی۔

ابتدائی بحث کے بعد سپریم کورٹ نے عمران خان کو ایک گھنٹے کے اندر عدالت پیش کرنے کا حکم دیا اور حکم دیا کہ عمران خان کیساتھ کوئی اور کارکن نہیں آئے گا۔آئی جی اسلام آباد ساڑھے چار بجے عمران خان کو عدالت پیش کریں،سپریم کورٹ میں جو لوگ موجود ہیں صرف ہونگے پی ٹی آئی کا کوئی اور بندہ عدالت نہیں آئے گا اور کیس کی سماعت ساڑھے چار بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین