پاکستان

لگتا ہے سرکاری ملازمین کو قرضوں کی فراہمی میں کوئی معیار مقرر نہیں، صدر عارف علوی

Published

on

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمین کو قرضوں کی فراہمی میں ایسا لگتا ہے کہ کوئی معیار نہیں ہے کہ کس ملازم کو کب اور کیسے باقاعدہ فہرست سے ترجیحی فہرست میں شامل کرنا ہے جبکہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے سرکاری ملازمین کو قرضوں کی فراہمی میں قواعد کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی ہے۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آڈیٹر جنرل کو خط میں سرکاری ملازمین کو قرضے دینے میں میرٹ اور معیار کی خلاف ورزیوں پر تحفظات کا اظہار کیا تھا،آڈیٹر جنرل نے خط کے بعد ایک خصوصی تحقیق میں موجودہ نظام میں خامیوں اور قواعد کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی۔

صدر عارف علوی نے خط میں شفافیت، میرٹ اور انصاف یقینی بنانے کیلئے قرضوں کے موجودہ نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

صدرمملکت نے کہا کہ قرض کے لیے دو الگ الگ فہرستیں ”باقاعدہ” اور ”ترجیحی” فہرست مرتب کی جارہی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اس بات کا کوئی معیار نہیں ہے کہ کس ملازم کو کب، کیوں اور کیسے "باقاعدہ فہرست” سے ”ترجیحی فہرست” میں منتقل کرنا ہے۔ معاملہ مختلف سرکاری افسران/اداروں کی طرف سے دائر کی گئی اپیلوں کی سماعت کے دوران سامنے آیا تھا، شکایت کنندگان نے ترجیحی سلوک اور میرٹ کی خلاف ورزی کے واقعات رپورٹ کئے تھے،جنرل فنانشل رولز اور 2015 کے منظور شدہ طریقہ کار کی خلاف ورزی میں کچھ سرکاری ملازمین کو قرضے جاری کیے گئے،مختلف وزارتوں کے پرنسپل اکائونٹنگ آفیسرز اپنی صوابدید پر ملازمین کی فہرستیں اے جی پی آر کو بھیجتے ہیں۔صدر مملکت نے کہا کہ ملازمین کو ترجیحی بنیادوں پر باری سے پہلے دیے گئے قرضے شکایات اور قانونی چارہ جوئی کا باعث بن رہے ہیں۔

صدر مملکت کے خط پر آڈیٹر جنرل نے وفاقی حکومت کے ملازمین کے لیے طویل مدتی قرضوں پر ایک خصوصی تحقیق کی،تحقیق میں موجودہ قواعد و ضوابط کی عدم پابندی کی وجہ سے خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی ہے،تحقیق میں ترجیحی سلوک کے خاتمے اور قرضوں کی فراہمی کے مروجہ نظام میں بہتری کی تجاویز پیش کی گئی ہیں،خزانہ ڈویژن نے 2015 میں قرضوں کی فراہمی کیلئے اے جی پی آر کی مشاورت سے ایک طریقہ کار وضع کیا تھا،کل مختص رقم میں سے  10 فیصد ہارڈشپ، 25 فیصد  ترجیحی  اور عام انتظار کی فہرست کے لیے 75 فیصد فنڈ مختص کئے جانے تھے،قواعد کے تحت ہارڈ شپ کیسز کے لیے ایک معیار ، کیسز کا فیصلہ دو رکنی ہارڈ شپ کمیٹی نے کرنا تھا ، شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنائے کیلئے اے جی پی آر اور فنانس ڈویژن کے ویب پیجز پر فہرستیں آویزاں ہونا تھیں،تحقیق کے مطابق ہارڈ شپ کیسز میں ہارڈ شپ کمیٹی کی منظوری کے بغیر قرضے دیئے جا رہے ہیں ،2015 میں کیے گئے فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فنانس ڈویژن اور اے جی پی آر معیار تیار کرنے میں ناکام رہے۔تحقیق میں کہاگیا ہے کہ کچھ معاملات میں  ملازمین کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا گیا، درخواست دینے کی تاریخ پر ہی انہیں فنڈ کی دستیابی کے سرٹیفکیٹ  جاری کیے گئے،فہرستیں متعلقہ ویب پیجز پر آویزاں نہیں کی جا رہیں،ہائوس بلڈنگ ایڈوانس اور موٹر کار ایڈوانس دونوں کیسز میں 10  فیصد کے بجائے ہارڈ شپ کے کیسز کے لیے 38 فیصد  خرچ کیے گئے۔موٹر کار ایڈوانس کیسز میں 25 فیصد کے بجائے 56  فیصد فنڈز ترجیحی طور پر جاری کیے گئے، تحقیق کے مطابق قرضوں کے  معاملات میں سنیارٹی لسٹوں پر عمل نہیں کیا گیا،قرضوں کی درخواستوں پر لاہور، گلگت اور پشاور کے ذیلی دفاتر کی طرف سے سیپ سسٹم کے بجائے دستی طور پر کارروائی کی جا رہی تھی،ہارڈ شپ فہرست کی موجودگی میں علیحدہ سے ترجیحی فہرست کی ضرورت نہیں۔

آڈیٹر جنرل کی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ ہارڈ شپ کے کیسز کے لئے 10 فیصد کوٹہ کی سختی سے پیروی کی جانی چاہئے،ہارڈ شپ معاملات پر سختی سے کمیٹی کی سفارشات کے مطابق کارروائی کی جانی چاہئے،سرکاری ملازمین کو قرضوں کی فراہمی کے لیے مناسب اصول و ضوابط بنائے جانے چاہئیں۔تحقیق کے مطابق معلومات تک رسائی کے لیے اے جی پی آر کی ویب سائٹ پر فہرستیں آویزاں کرنے کی ضرورت ہے،قرض کے کیسوں کی پروسیسنگ میں کم از کم تین ماہ کے انتظار کی مدت اور تمام کیسز کو مینوئل پروسیسنگ کے بجائے سیپ کے ذریعے پراسیس کرنے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version