Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

جمہوری پلاسٹک کے پھل

Published

on

کچھ چیزیں دیکھنے میں تو بہت اچھی لگتی ہیں لیکن ان سے کسی کو شاذونادر ہی کوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ اس حوالے سے بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں جیسے کسی عمارت کے صحن میں لگا ایک خوبصورت فوارہ جو اپنی تمام تر خوبصورتی کے باوجود ایک نلکے کی طرح کارآمد نہیں ہوسکتا۔
یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ ایک فوارہ بیشک نلکے کی طرح کارآمد نہیں لیکن پھر بھی اس سے پانی تو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے برعکس کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی تمام تر خوبصورتی کے باوجود بالکل بیکار ہوتی ہیں، جیسے کہ پلاسٹک کے پھل۔
پلاسٹک کے پھل نہ صرف بیکار ہوتے ہیں بلکہ اگر ان کو اصل پھل سمجھ کر کھانے کی کوشش کی جائے تو یہ آپ کی صحت کے لیے بھی انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
صحافت ہو، سیاست ہو یا کوئی اور شعبہ، ویسے تو فریب نظر پلاسٹک کے پھل ہمیں ہر جگہ نظر آتے ہیں لیکن صحافت اور نام نہاد جمہوری پلاسٹک کے پھلوں میں خاص قربت، نظریاتی ہم آہنگی اور تعاون دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ دونوں اپنی لگی لپٹی باتوں سے عوام کو گمراہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
یہ ایک دوسرے کو اصل پھل ثابت کرنے کے لیے زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں۔ جب صحافت کے پلاسٹک کے پھلوں پر کوئی سوال اٹھائے تو یہ یک زبان ہو کر اسے آزادی رائے اور آزادی صحافت پر حملہ قرار دیتے ہیں۔
اسی طرح جب جمہوری پلاسٹک کے پھلوں کی بدعنوانی پکڑی جائے اور ان کے احتساب کی بات کی جائے تو یہ فوراً جمہوریت پر حملے کا واویلا شروع کر دیتے ہیں۔
جمہوری پلاسٹک کے پھلوں کے آئین اور قانون پر لیکچر اپنی مثال آپ رکھتے ہیں، جمہوریت پر ایسے بھاشن دیتے ہیں کہ ایک دفعہ تو یونانی بھی سن کر پریشان ہو جائیں کہ جمہوریت شاید یونان میں نہیں ان لوگوں کی سیاسی جماعتوں نے دریافت کی تھی۔
لیکن آئین میں درج نوے روز کے اندر نے انتخابات کے معاملے پر ان کی جمہوریت آئینی علم خاموش ہوجاتا ہے۔ پارلیمان میں عدلیہ کے خلاف تقاریر قراردادیں ان کا فیورٹ پاس ٹائم ہے۔ یہ پلاسٹک کے جمہوری پھل شاذونادر ہی آپ کو عوامی مسائل پر بات کرتے نظر آئینگے۔ عوام کے ساتھ تھانوں میں، سرکاری ہسپتالوں اور دفاتر میں جیسا برا سلوک کیا جاتا ہے اس پر انھوں نے کبھی نہ سینیٹ میں اور نہ ہی کبھی قومی اسمبلی میں آنسو بہائے ہیں۔

ان جمہوری پلاسٹک کے پھلوں کے بقول ایک آمر کو ڈیڈی کہنے والا سب سے بڑا جمہوری لیڈر تھا، دولت سے سیاست کو خریدنے والا سب سے بڑا نظریاتی ہے، کرپشن کے الزامات میں ایک دھائی تک جیل میں رہنے والا دراصل عوام کی جنگ لڑ رہا ہے، ملک کی سب سے بڑی عدالت میں جعل سازی کرنے والی قوم کے ضمیر کی آواز ہے اور ایک مشکوک وصیت کی بدولت پارٹی کا چیئرمین بنے والا شخص ہی “سلیکٹڈ” لوگوں کو بے نقاب کر سکتا ہے۔
جمہوری پلاسٹک کے پھلوں میں سے چند ایک منفرد مقام رکھتے ہیں، کسی کی چادر اوڑھنے کا اور کسی کے بالوں کا سٹائل مشہور ہے تو کوئی ریاست پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں اپنی مثال آپ ہے۔
لیکن ایک بات کا کریڈٹ ان کو دینا پڑے گا کہ یہ ابھی ملک پر جمہوریت کے نام پر حکومت کر رہے ہیں ،اور جمہور کو ووٹ کا حق دینے کا فصلہ کر نے پر عدالت پر حملہ آور ہیں۔
اب اگلے چند دن تک آپ صحافت کے پلاسٹک کے پھلوں کو دیکھیے گا کہ کیسے یہ اپنے پیٹ بھائیوں کا دفاع کرتے ہیں۔

10 سال سے زائد عرصے پر محیط صحافتی تجربے کے حامل اطہر کاظمی بین الاقوامی میڈیا سمیت پاکستان کے مختلف چینلز میں بھی اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں اور آج کل 'سنو ٹی وی' سے منسلک ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین