دنیا
جاپان نے جنسی عمل میں رضامندی کی قانونی عمر 13 سے بڑھا کر 16 سال کردی
جاپان نے جنسی زیادتی اور رضامندی سے جنسی عمل کے متعلق قوانین تبدیل کئے اور جنسی زیادتی کے جرم کی نئی تشریح کی گئی ہے۔
جاپان کے قانون کے مطابق جبری جنسی عمل کو ریپ کا جنسی زیادتی قرار دیا جاتا تھا اب اسے تبدیل کر کے بغیر رضامندی جنسی عمل کو بھی ریپ یا جنسی زیادتی کا جرم قرار دیا گیا ہے، جنسی عمل میں رضامندی کے لیے عمر کی قانونی حد 13 سے بڑھا کر 16 سال کر دی گئی ہے۔
نئے قوانین کی منظوری جاپان کی پارلیمان کے ایوان بالا نے دی ہے، جنسی عمل میں رضامندی نہ ہونے کے 8 ممکنہ منظرنامے بھی اسن قوانین میں واضح کئے گئے ہیں کہ کن صورتوں میں جنسی عمل کو بغیر رضامندی تصور کیا جائے گا، ان ممکنہ 8 منظرناموں میں، زیادتی کے شکار کا، شراب، منشیات کے استعمال سے بیہوش ہونا، تشدد اور دھمکیوں کے ساتھ جنسی عمل، جنسی عمل کے شکار کا خوفزدہ ہونا شامل ہے، اس کے علاوہ ایک ممکنہ منظرنامہ اختیار اور طاقت کا ناجائز استعمال ہے جس میں زیادتی کا شکار فرد انکار کی صورت میں خطرات محسوس کرے۔
جاپان میں جنسی عمل کے لیے رضامندی کی عمر 1907 کے بعد پہلی بار تبدیل کی گئی ہے، اس سے پہلے جاپان جنسی عمل کے لیے رضامندی کی سب سے کم عمر والا ملک تھا۔ جاپان میں پرانے قانون کے مطابق 13 سال کے فرد سے جنسی عمل کرنے والا اگر پانچ سال اس سے بھی زیادہ بڑا ہوتا تو اس صورت میں یہ جرم قابل تعزیر تھا۔
جاپان جنسی زیادتی کی شکایت درج کرانے کی مدت واقعہ کے بعد دس سال سے بڑھا کر پندرہ سال کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے تاکہ جنسی زیادتی کے شکار افراد کو شکایت درج کرانے کے زیادہ سے زیادہ موقع مل سکے۔
جاپان میں 2019 کے دوران جنسی زیادتی کے کئی ملزم عدالتوں سے بری ہونے پر بہت شور اٹھا تھا جس کے بعد جنسی جرائم کے حوالے سے قوانین سخت کرنے اور ان پر نظرثانی کا فیصلہ کیا گیا۔