ٹاپ سٹوریز

جڑانوالہ: 6 گرجا گھر جلا دیئے گئے، مسیحی برادری کے 15 سے زیادہ مکان بھی نذر آتش، حالات بے قابو، رینجرز طلب

Published

on

فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں قرآن پاک کی بیحرمتی کے مبینہ واقعہ پر حالات کشیدہ ہیں، مشتعل ہجوم نے چھ گرجا گھر جلا دیئے، مسیحی برادری کے گھروں کو بھی جلایا گیا، شرپسندوں نے کئی گھروں میں لوٹ مار کی، حالات پر قابو پانے کے لیے رینجرز کو طلب کر لیا گیا۔

احتجاج کا سلسلہ بدھ کی صبح اُس وقت شروع ہوا جب عیسیٰ نگری نامی علاقے میں چند نوجوانوں کی جانب سے قرآن کے اوراق کی مبینہ بےحرمتی کی اطلاعات شہر اور سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی، اس اطلاع کے نتیجے میں صبح نو بجے کے قریب مشتعل افراد سنیما چوک کے پاس اکٹھے ہونے لگے۔

مشتعل ہجوم نے دو گرجا گھر تباہ کیے۔ پہلے ہجوم کی جانب سے عیسیٰ نگری محلے میں ایک چرچ کو نشانہ بنایا گیا اور اس کے علاوہ اس سے سوا کلومیٹر کی دوری پر ٹیلی فون ایکسچینج کے پاس موجود ایک چرچ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے زیادہ تر لوگ عیسی نگری میں ہیں اور آبادی کا بمشکل 5 فیصد ہیں،ہجوم کی جانب سے ان لوگوں کے گھروں میں گھس کر بھی توڑ پھوڑ کی گئی اور آگ لگائی گئی۔

مشتعل ہجوم کیسے اکٹھا ہوا؟

اس واقعہ کے بعد اسسٹنٹ کمشنر شوکت مسیح کو ہٹا دیا گیا ہے تاہم ان کے مطابق صبح آٹھ سے نو بجے کے درمیان ہمیں مشتعل مظاہرین کی جانب سے عیسیٰ نگری میں احتجاج اور آگ لگائے جانے کی اطلاعات ملیں۔ مشتعل مظاہرین نے ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا رکھے ہیں اور ایسے ہی ایک گروہ کی جانب سے اے سی جڑانوالہ کے دفتر پر بھی حملہ کیا گیا۔

حکام کے مطابق صورتحال کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور لاہور سے رینجرز کے 150 جوان جڑانوالہ پہنچ رہے ہیں۔

اس حوالے سے چند عینی شاہدین کے جو بیانات سامنے آئے ہیں ان کے مطابق منگل اور بدھ کی درمیانی شب کرسچین کالونی میں عامر نامی نوجوان نے چند ایسے پمفلٹ لکھے جو مبینہ طور پر توہین مذہب کے زمرے میں آتے ہیں اور انھوں نے مبینہ طور پر قران پاک کے چند اوراق کی بھی بےحرمتی کی۔ فجر کی نماز کے بعد اس واقعے کی اطلاع ملنے پر مشتعل افراد کی بڑی تعداد علاقے میں جمع ہو گئی اور توڑ پھوڑ شروع کر دی۔

مظاہرین نے نہ صرف اس بستی میں موجود تین گرجا گھروں کو نذر آتش کیا بلکہ کالونی کے 15 مکانات کو بھی آگ لگا دی۔

واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے کرسچین کالونی کے مکینوں کو یہ علاقہ خالی کرنے کو بھی کہا۔بھاری نفری تعینات ہونے کے باجود پولیس مظاہرین کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔

جڑانوالہ کے تھانہ سٹی کے ایک اہلکار نے بھی تصدیق کی کہ مظاہرین نے مسیحی بستی میں موجود کچھ گھروں کو آگ لگائی جبکہ وہاں لوٹ مار کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔

شہر کے مختلف علاقوں جن میں کرسچین کالونی، ناصر کالونی، عیسیٰ نگری، مہاراوالا، چک نمبر 120 گ ب شامل ہیں،حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔ شہر کے وسط میں قائم کرسچین کالونی کی آبادی گھروں کو چھوڑ کر جا چکی ہے اور مشتعل ہجوم نے ان مکانات میں بھی توڑ پھوڑ کی ہے۔

جڑانوالہ کے گرجا گھروں کے انچارج فادر خالد مختار نے میڈیا کو بتایا کہ صبح چھ بجے اطلاع ملی کہ کرسچین کالونی جڑانوالہ میں ایک مسلم گھر کے سامنے نامزد ملزموں نے مبینہ طور پر قرآن کی بےحرمتی کی ہے۔ واقعے کے فوراً بعد کرسچین کالونی میں حالات کشیدہ ہونا شروع ہو گئے اور مشتعل افراد نے مقامی گرجا گھر کو نذر آتش کر دیا۔ اس کے بعد شہر میں مسیحی برادری کے تمام علاقوں میں حالات کشیدہ ہونا شروع ہو گئے۔

فادر خالد مختار نے دعویٰ کیا کہ اب تک شہر میں چھ گرجا گھر جلائے جا چکے ہیں۔ جبکہ ان کی اپنی رہائش گاہ پیرش پاسٹر ہاؤس کو بھی تذر آتش کر دیا گیا ہے۔ کرسچین کالونی میں سب سے زیادہ ہنگامہ آرائی ہوئی ہے۔

فادر خالد مختار کے مطابق کرسچین کالونی کا گرجا گھر نذر آتش کرنے کے بعد ایک گروہ نے ناصر کالونی میں واقع ان کی رہائش گاہ پیرش ہاؤس کا رخ کیا اور دو گھنٹے سے زیادہ وہ اس کے باہر جمع ہو کر احتجاج کرتے رہے۔ وہ خود بھی مشتعل ہجوم کے نرغے میں آ گئے تھے اور تقریباً دو گھنٹے سے زائد وقت تک اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ناصر کالونی میں واقع گھر میں محصور رہنے کے بعد جان بچا کر نکلنے میں کامیاب ہوئے۔  اس دوران انھوں نے متعدد مرتبہ پولیس کی ہیلپ لائن پر مدد کے لیے کال کی لیکن پولیس ان کی مدد کو نہیں آئی۔

ان کا دعویٰ ہے کہ اس دوران مشتعل ہجوم ایک دوسری بستی میں قائم گرجا گھر کو نذر آتش کرنے کا ارادہ لیے ان کے گھر سے دور ہوا جس کے فوراً بعد وہ وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تاہم ان کے وہاں سے نکلنے کے بعد ہجوم نے پیرش پاسٹر ہاؤس کو بھی جلا دیا۔

مقدمہ کیا درج ہوا؟

جڑانوالہ پولیس کی جانب سے بدھ کو دو مسیحی نوجوانوں کے خلاف قرآن کی بےحرمتی اور توہینِ رسالت کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔

مقدمے کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ جب موقع پر پہنچے تو انھیں وہاں سے قرآن کے اوراق ملے جن پر سرخ پنسل سے گستاخانہ الفاظ لکھے ہوئے تھے اور ایک کلینڈر بنایا ہوا تھا تاہم ملزم موقع سے فرار ہو چکے تھے۔

فیصل آباد پولیس کی جانب سے بھی ٹوئٹر پر جاری پیغام میں جڑانوالہ کے شہریوں کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ ’قرآن پاک کی بےحرمتی کرنے والوں کے خلاف سٹی تھانہ جڑانوالہ میں مقدمہ درج ہو چکا ہے اس لیے مظاہرین اشتعال انگیزی اور توڑ پھوڑ سے گریز کریں‘۔

پولیس کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے بھی مارے گئے ہیں تاہم وہ فرار ہو چکے ہیں۔

مسیحی برادری پر ماضی میں حملے

یہ پاکستان میں پہلا موقع نہیں ہے کہ توہین مذہب کے مبینہ الزامات لگائے جانے کے بعد مسیحی برادری کی آبادیوں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔

سنہ 2013 میں لاہور کے علاقے بادامی باغ میں واقع جوزف کالونی پر ایسے ہی ایک حملے اور آتشزنی کے نتیجے میں سینکڑوں مسیحی بے گھر ہو گئے تھے جبکہ علاقے میں امن و امان کا سنگین مسئلہ پیدا ہوا تھا۔

اس سے قبل اگست 2009 میں ضلع فیصل آباد کی ہی ایک اور تحصیل گوجرہ میں مسلم مسیحی فسادات کے نتیجے میں کم از کم چھ مسیحی ہلاک ہوئے تھے۔

گوجرہ کے ایک گاؤں میں یہ فسادات اس وقت شروع ہوئے تھے جب مسیحی برادری کی ایک شادی کے دوران مبینہ طور پر قرآن کی بے حرمتی کے الزام پر مشتعل ہو کر گاؤں کی مسلمان آبادی نے ایک مسیحی بستی پر دھاوا بول کر چالیس کے قریب مکانات کو آگ لگا دی تھی۔

سوشل میڈیا پر واقعے کی شدید مذمت

جڑانوالہ میں مشتعل ہجوم کی جانب سے میسحی برادری کی عبادت گاہوں اور گھروں کو نشانہ بنانے سے متعلق سب سے پہلے بشپ چرچ آف پاکستان بشپ آزاد مارشل نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’جب میں یہ لکھ رہا ہوں تو لفظ کم پڑ رہے ہیں۔ ہم، بشپ، پادری اور عام لوگ پاکستان کے ضلع فیصل آباد میں جڑانوالہ کے واقعے پر گہرے دکھ اور غم میں مبتلا ہیں۔ جب میں یہ پیغام لکھ رہا ہوں تو اس وقت چرچ کی عمارت کو جلایا جا رہا ہے۔ بائبل کی بے حرمتی کی گئی ہے اور مسیحیوں کو اذیتیں دی گئی ہیں اور ان پر قرآن پاک کی بے حرمتی کرنے کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔

ہم انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں سے فوری کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ ہمیں یہ یقین دلایا جا سکے کہ ہمارے لوگوں کی جان و مال ہمارے ملک کے لیے قیمتی ہیں جس نے ابھی ابھی جشن آزادی منایا ہے۔‘

جس کے بعد سوشل میڈیا پر مشتعل ہجوم کی جانب سے جڑانوالہ میں مسیحی آبادی کے گھروں میں توڑ پھوڑ اور گرجا گھروں کو نذر آتش کرنے کا واقعے پر سیاستدانوں، صحافیوں سمیت تمام مکتوب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے مذمت کی ہے۔

نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ سے سامنے آنے والے مناظر دیکھ کر میں پریشان ہوں۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں لائے۔ یقین رکھیں کہ حکومت پاکستان برابری کی بنیاد پر ہمارے شہریوں کے ساتھ کھڑی ہے۔‘

سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شریں مزاری نے لکھا کہ ’ یہ انتہائی شرمناک اور قابل مذمت فعل ہے۔ ہماری مسیحی برادری اور ان کے گرجا گھروں کو بچانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں؟

محمد تقی نامی ایک صارف نے پاکستان میں بشپ چرچ آف پاکستان بشپ آزاد مارشل کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ ’محترم بشپ، فیصل آباد میں پاکستانی مسیحیوں اور گرجا گھروں کو نذر آتش کرنے کے واقعات پر ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ ہم اس بے لگام، منظم تعصب اور نفرت سے تحفظ نہیں، صرف دکھ اور تسلی دے سکتے ہیں۔

سابق سنیٹر افراسیاب خٹک نے بھی اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ قابل مذمت ہے۔ پاکستانی ریاست اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مذہب کے نام پر ہونے والے جرائم کو استثنیٰ نے انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔‘

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version