ٹاپ سٹوریز

جڑانوالہ:دل میں خوف بیٹھ گیا ہے، خاندان کے لیے محفوظ جگہ چاہتی ہوں

Published

on

اٹھارہ سالہ کنول ابھی اپنے نوزائیدہ بچے سیموئیل کے ساتھ ہسپتال سے واپس آئی ہی تھی کہ مسیحی بستی میں میں ایک ہجوم نے ان کے گھر پر حملہ کر دیا۔

خوفزدہ ہو کر، اس نے بچے کو جھپٹ کر اٹھایا اور اپنے باقی خاندان کے ساتھ ننگے پاؤں بھاگ نکلی، گزشتہ ہفتے اپنے گھر کو نذر آتش کرنے والے ہجوم سے بال بال بچ گئی، اس حملے میں ان کے پالتو پرندے اور سارا سامان ضائع ہو گیا۔

جڑانوالہ کے ہلچل سے بھرے بازار میں ایک سکول میں بنائی گئی عارضی پناہ گاہ میں ایک کلاس روم میں بیٹھی کنول نے اپنے نوزائیدہ بچے کو جھولا جھلاتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے پڑوسیوں سے بہت خوفزدہ ہیں … ہم نہیں چاہتے کہ وہ ہمارے پاس جو کچھ بھی بچا ہے اسے تباہ کر دیں،

اس نے مزید کہا کہ ہمیں کہیں اور منتقل کر دیا جائے۔ اس کے 11 سالہ بھائی اور بہنیں جن کی عمریں سات اور 11 سال ہیں اسکول واپس جانے سے خوفزدہ ہیں۔

ان کی والدہ کرن نے کہا کہ گرمیوں کی تعطیلات کے بعد آج اسکول کا پہلا دن تھا لیکن میں نے خوف کی وجہ سے انہیں نہیں بھیجا۔ میں نے ان سے کہا، اگر زندہ رہو گے تو تعلیم بھی مل جائے گی۔

بدھ کے روز مشتعل ہجوم کی گھنٹوں تک جاری رہنے والی ہنگامہ آرائی کے دوران تقریبا 160 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، ہجوم کے بارے میں رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ سب لوہے کی سلاخیں، چاقو اور لاٹھیاں اٹھائے ہوئے تھے اور انہوں نے گرجا گھروں اور متعدد گھروں کو آگ لگا دی۔

پولیس اور رہائشیوں نے بتایا کہ حملہ اس وقت شروع ہوا جب کوئی شخص قرآن پاک کے  صفحات کو مسجد کے ایک امام کے پاس لے گیاجن کی مبینہ طور پر بیحرمتی کی گئی تھی، اس کے بعد سزا کے مطالبے کے اعلانات ہوئے۔

پولیس نے توہین مذہب کے الزام میں دو مسیحی مردوں کو گرفتار کیا ہے اور ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔

پاکستان میں توہین مذہب کی سزا موت ہے لیکن کبھی کسی کو پھانسی نہیں دی گئی، اگرچہ توہین مذہب کے الزام میں متعدد افراد ماضی میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں۔

رینجرز کا ایک بڑا دستہ جڑانوالہ میں قیام امن کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکام نے مسیحی برادری کے لیے مالی مدد کا وعدہ کیا ہے۔

نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے پیر کو علاقے کا دورہ کیا، متاثرہ خاندانوں کے لیے امداد کا اعلان کرتے ہوئے، حملے کو ظلم قرار دیا اور اقلیتی برادریوں سے وعدہ کیا کہ حکومت ان کی حفاظت کرے گی۔

لیکن کمیونٹی کے ارکان اور وکلاء کا کہنا ہے کہ صدمے اور خوف کا علاج مشکل ہو گا اور ان کی حفاظت یقینی نہیں۔ بہت سے لوگ گھر واپس جانے سے خوفزدہ ہیں اور صدمے میں ہیں، یہ نہیں جانتے کہ اپنی زندگیوں کی تعمیرنو کہاں سے کریں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے نسیم انتھونی نے سالمن چرچ کے باہر ایک اجتماع سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر کوئی انہیں خوراک دینے، انہیں پناہ دینے پر توجہ دے رہا ہے، لیکن وہ کیا محسوس کر رہے ہیں، وہ اندر سے کیسے ٹوٹے ہوئے ہیں، وہ کیسے مانیں گے کہ وہ برابر کے شہری ہیں، یہ اہم بات ہے۔ نفسیاتی نقصان کے بارے میں سول سوسائٹی میں بہت شدید تشویش ہے۔

چرچ سے چند گلیوں کے فاصلے پر تقریباً 240 لوگ کنول کے خاندان کے ساتھ اسکول میں عارضی پناہ گاہ میں رہتے ہیں۔

کلاس روم میں چارپائیاں بچھائی گئی ہیں، دیواروں پر اب بھی چارٹ لگے ہوئے ہیں جن میں حروف تہجی اور گنتی کا طریقہ دکھایا گیا ہے۔

بہت سے لوگوں نے حملے کے بعد ابتدائی چند دن باہر، کھیتوں اور سڑکوں پر شدید گرمی میں گزارے۔

انہوں نے بدھ کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے افسردگی اور اضطراب کے احساسات کو بیان کیا۔ کمیونٹی رہنما اکمل بھٹی نے کہا، جڑانوالہ کی کرسچن کالونی کے زیادہ تر لوگ بے چینی اور تحفظات کا شکار ہیں، غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے گھر واپس جانے سے خوفزدہ ہیں

انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب خوف کے احساس کو جنم دے رہا ہے۔ بچوں کی اکثریت نفسیاتی مسائل کا شکار ہے… اب بچے اور بچیاں لوگوں سے خوفزدہ ہیں، وہ بازاروں اور ہجوم والی جگہوں پر نہیں جانا چاہتے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو جب تک ضرورت ہو یہاں رہنے دیا جائے گا، انہیں  مدد فراہم کرنے کے لیے ڈاکٹروں اور نرسوں کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔

غیر سرکاری تنظیموں کا اندازہ ہے کہ تشدد سے متاثرہ علاقے میں سینکڑوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ کچھ قریبی عارضی پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں، اور کچھ رشتہ داروں کے ساتھ۔

کنول اور اس کی ماں کرن کو یقین نہیں ہے کہ ان کا خاندان کب تک یہاں رہے گا۔

کرن نے کہا، اب میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ میں تحفظ چاہتی ہوں، اپنے خاندان کے رہنے کے لیے ایک محفوظ جگہ چاہتی ہوں۔ میرے دل اور میرے بچوں کے ذہنوں میں جو خوف سرایت کر گیا ہے وہ دور نہیں ہو رہا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version