تازہ ترین
جسٹس منصور علی شاہ نے ججز کی ایسوسی ایشن بنانے کی تجویز دے دی
ایسوسی ایشن بنا کر ہم عدلیہ کو درپیش بہت سے مسائل حل کر سکتے ہیں
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 50 فیصد خواتین کی آبادی والے ملک میں صرف 16 فیصد خواتین عدلیہ میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔ عدلیہ میں خواتین کی تعیناتیوں میں قوانین کو بہتر بنانا ہو گا۔ عدلیہ میں آنے والی خواتین کو ترجیحی بنیاد پر حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔
اسلام آباد میں ریجنل انکلوسو جسٹس سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا میرے پاس ڈسٹرکٹ جوڈیشری کا مکمل ڈیٹا نہیں کہ سٹرکچرل انٹروینشن پر بات کروں۔ پینل میں شریک حضرات اس معاملے پر ضرور بات کریں۔ ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے ججز کو جوڈیشل آفسر کہنا مناسب نہیں سمجھتا۔ جوڈیشل پالیسی، انفراسٹرکچر رکاوٹیں، خواتین کے لیے قانونی تعلیم کا مناسب حصول سمیت دیگر معاملات پر بات کروں گا۔ آرٹیکل 34 کہتا ہے کہ خواتین تمام معاملات میں مکمل حصہ لیں۔ پاکستان کی عدلیہ میں عالمی بینچ مارک کو دیکھتے ہوئے ججز کی کمی ہے۔ پروموشنز کے لیے میرٹ کو معیار بنانا ہو گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ججز کی ایسوسی ایشن بھی ہونی چاہیے یہ عین جمہوری ہے۔ ایسوسی ایشن بنا کر ہم عدلیہ کو درپیش بہت سے مسائل حل کر سکتے ہیں۔ ہمیں جوڈیشل سروس ایکٹ کی ضرورت ہے۔ عدلیہ میں بنائی جانے والی پالیسیز میں خواتین کی شمولیت ہونی چاہیے۔ یہ ناانصافی ہو گی کہ صرف مرد حضرات عدلیہ کی پالیسی بنائیں۔ خواتین کی عدلیہ میں زیادہ شمولیت سے خواتین کو ہراساں کرنے کے کیسز بہتر انداز میں حل ہو سکیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدلیہ میں ڈائورسٹی انکلشن ڈیپارٹمنٹ کا ہونا بہت ضروری ہے۔ دور دراز علاقوں میں انتہائی نامساعد حالات میں کام کرنے والی خواتین ججز ستائش کی مستحق ہیں۔ پالسی میکر کا ڈسٹرکٹ جوڈیشری کے لیے کام بہت کچھ اور کرنے کا متقاضی ہے۔ خواتین ججز کے لیے خواتین سٹاف بڑھانے کی ضرورت ہے۔ آج کا سوال یہ ہے کہ عدلیہ میں خواتین کی اتنی کمی کیوں ہے۔ عدلیہ میں خواتین کو آنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔