Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

مریم نواز کو کام کرنے دو

Published

on

برصغیر کی سیاسی تاریخ میں مسلمان خواتین چھائی نظر آتی ہیں۔ رضیہ سلطانہ سے لے کر جھانسی کی رانی، درگا دیوی اور شہید بینظیر بھٹو جسیے ناموں نے کہیں حکمرانی میں اپنا سکہ جمایا تو کہیں ملکہ نورجہاں، فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان جیسی شخصیات نے سیاست میں پس پردہ رہتے ہوئے لازوال مشاورتی کردار ادا کئے۔ اور اب پیر کے روز مریم نواز کے وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر انتخاب کو پاکستان کے سیاسی اور سماجی افق پر ایک بڑی پیش رفت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ شہید بینظیربھٹو پاکستان کی دو بار وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ لیکن مریم نواز پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی صوبے کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہیں۔

مریم نواز کے وزارت اعلی کا حلف اٹھاتے ہی ان کی کامیابی اور ناکامی کے امکانات پر گفتگو پوری شدومد سے شروع ہوگئی ہے۔ انتہا پسند رویوں کی حامل تحریک انصاف کی موجودگی میں ملکی سیاست اس وقت خوفناک پولرائزیشن کا شکار ہے۔ ایسے میں مریم نواز کی حکمرانی پر جہاں اپوزیشن کی نظریں لگی ہوئی ہیں وہیں خود مخلوط حکومت میں نون لیگ کی اتحادی جماعتیں بھی ان کے کسی اقدام کو نظرانداز نہیں کریں گی۔ جبکہ میڈیا بھی روزانہ کی بنیاد پر پورا حساب لینے کے لئے تیار بیٹھا ہے۔

کہا جارہا ہے کہ مریم نواز کو حکمرانی کا کوئی تجربہ نہیں اور اس لحاظ سے وہ تحریک انصاف کے عثمان بزدار سے مختلف کردار نہیں ہوں گی۔ یہ باتیں بہت جلد بلکہ قبل ازوقت ہونے لگی ہیں۔اصولاً کسی بھی نئی حکومت کے پہلے سو دن پاؤں جمانے کے لئے دئیے جاتے ہیں اس دوران اس کی ترجیحات کا جائزہ لیا جاتا ہے جس کے بعد اس کی ناکامی یا کامیابی کے اندازے لگائے جاتے ہیں۔ پنجاب کی نئی حکومت کے ساتھ بھی یہی سلوک ہونا چاہیے اور مریم نواز کو اپنے وژن پر عملدرآمد اور ترجیحات کے تعین کے لئے وقت ملنا چاہئیے۔

مریم نواز بنیادی طور پر دو بڑے مقاصد کے ساتھ حکومت میں آئی ہیں۔ ایک تو صوبے میں گورننس کے معیار کو بہتر بنا کر نون لیگ سے روٹھی ہوئی نئی نسل کو منانا اور پھر اسی بنیاد پر نون لیگ کی مقبولیت کے گرتے ہوئے گراف کو سنبھالنا اور بطور جانشیں اپنے والد میاں نوازشریف کے سیاسی ورثے نون لیگ کو مستقبل کی سیاسی جماعت کے طور پر آگے بڑھانا۔

جہاں تک حکمرانی کی بات ہے تو یہ درست ہے مریم نواز نے کبھی پارلیمانی سیاست میں حصہ نہیں لیا لیکن ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے کہ شریف فیملی کی پاکستان میں سیاست چار دہائیوں پر محیط ہے۔ مریم نوازکے والد میاں نوازشریف نے 1983  میں بطور وزیرخزانہ پنجاب اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تو پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ پنجاب کے دوبار وزیراعلیٰ اور ملک کے تین بار وزیراعظم رہے جبکہ مریم کے چچا شہبازشریف پنجاب کے تین بار وزیراعلیٰ رہنے کے بعد اب دوسری بار ملک کے وزیراعظم بننے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ متعدد مرتبہ زبردست پھڈا، گرفتاریاں، مقدمے، عدالتوں کی پیشیاں، جیلیں اور جلاوطنیاں پوری فیملی کے ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ خود مریم نواز نے اپنے والد کے ساتھ عدالتوں میں یشیاں بھگتیں، جیل کاٹی۔ اب اس کے بعد اور کیا سیاسی تجربہ چاہیے۔

میاں نوازشریف کی جلاوطنی کے بعد بحرانی صورتحال میں نون لیگ جب انتہائی مایوسی کا شکار تھی تو ایسے میں مریم نواز نے تحریک انصاف کی حکومت میں ضمنی انتخابات میں بھرپور مہم چلا کر کئی انتخابی معرکے سر کئے جس سے پارٹی میں ایک نئی جان پڑی۔ اب الیکشن 2024 میں انہوں نے بطور چیف آرگنائزر پہلے نون لیگ کی تنظیم نو کی اور پھر  خود ملک گیر انتخابی مہم چلائی۔

مسلم لیگ نون کو پنجاب میں حکمرانی کا چالیس سال کا تجربہ ہے۔ ان کے پاس سیاسی ٹیم بھی ہے جبکہ شریف فیملی کی بیوروکریسی میں بڑی مضبوط جڑیں ہمیشہ سے موجود ہیں۔ مریم نواز کو صوبے کی حکمرانی میں اس حوالے سے کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہئیے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ مریم نواز ایک بہتر بیوروکریٹک ٹیم کا انتخاب کریں جو ان کے وژن پر عملدرآمد کے لئے ان کا پورا ساتھ دے۔

اب بات آجاتی ہے کہ ایسا کیا کیا جائے جو ماضی سے مختلف ہو؟ تو اس حوالے سے شہبازشریف کا طرز حکمرانی سب کے سامنے ہے۔ شہبازشریف کو اگرچہ ان کی میڈیا ٹیم نے شہبازسپیڈ کا نام دے کر بہت گلوریفائی کیا لیکن نون لیگ کے لئے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ لاکھوں لیپ ٹاپ بانٹ کر، سستی روٹی سکیمیں چلا کر بھی نون لیگ اپنی حریف تحریک انصاف کا راستہ نہیں روک سکی۔ پنجاب میں ہر روز دس ہزار سے زائد نوجوان اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ رہے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ نون لیگ اس نوجوان نسل میں اپنی جگہ نہیں بنا سکی۔ نون لیگ کے تھنک ٹینکس (اگر ہیں تو) اس بات پر غور کریں کہ ان کی جماعت محض آپٹکس پر تو کام نہیں کررہی ہے جبکہ صحت، تعلیم، مہنگائی، نوجوانوں کے لئے روزگار جیسے عوام کے اصل ایشوز ابھی تک حل طلب ہیں۔

مریم نواز نے اگر نون لیگ کو دوبارہ  پیروں پر کھڑا کرنا ہے تو انہیں بارہ کروڑ سے زائد آبادی کے صوبے پنجاب میں عوام کے لئے دن رات کام کرنا ہوگا۔ نومنتخب وزیراعلی  نے اپنے پہلے خطاب میں اپنی جن ترجیحات کا ذکر کیا وہ بہت قابل قدر ہیں یہ تمام باتیں منشور اور تقاریر میں بہت اچھی لگتی ہیں لیکن اصل چیلینج انہیں عملی جامہ پہنانا ہے۔ یہ سب ناممکن نہیں، ضرورت صرف عزم کی ہے۔

مریم نواز کا شمار ان چند خوش قسمت سیاستدانوں میں ہوتا ہے جو اپنی پہلی پارلیمانی ٹرم میں ہی وزارتِ اعلیٰ کے عہدے تک پہنچ گئے۔ جبکہ ان کے والد نوازشریف اور چچا شہباز شریف پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے بعد ملک کی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ مریم نواز اگر اپنے وژن پر عملدرآمد میں کامیاب ہوگئیں تو یہ محنت ان کے لئے بھی وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کا زینہ بن سکتی ہے۔ لیکن اس کے لئے انہیں پہلے روٹھے عوام کو منانا ہوگا۔

لاہور سے سینئر صحافی ہیں۔ جنگ،پاکستان، کیپیٹل ٹی وی، جی این این اور سما ٹی وی سمیت ملک کے نامور اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لئے سیاسی رپورٹنگ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مختلف اخبارات میں ان کے آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں جبکہ ٹی وی چینلز پر کرنٹ افئیر کے پروگرامز میں بھی بطور تجزیہ کار ان کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین