ٹاپ سٹوریز

جانوروں کو ایذا رسانی کے قوانین نظرانداز، کراچی میں جانور چھتوں پر پالنے اور کرین کے ذریعے اتارنے کا عمل جاری

Published

on

شہر قائد کے گنجان آبادی والے علاقے ناظم آباد کے رہائشی نے عید قرباں پر قربانی کے لیے گھر کی چھت پر نعم و ناز سے پالے بھاری بھرکم جانوروں کو ہائیڈرولک کرین کے ذریعے بالائی منزل سے زمین پر اتارا،جانوروں کی بلندی سےمنتقلی کے دوران کرین آپریٹرز نےانتہائی مہارت کا مظاہرہ کیا،دلچسپ منظر کو دیکھنے کے لیے علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد موجود رہی،جو اپنے موبائل فون کے کیمروں میں اس دلچسپ منظر کو عکسبند کرتے رہے۔

جانوروں کے ساتھ ناروا سلوک سن 1990کے قانون کے تحت جانوروں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے، سن 2020 میں جاری نئے نوٹیفکیشن کے تحت یہ سرگرمیاں پابندی کے زمرے میں آتی ہیں۔

گذشتہ برسوں کی طرح امسال بھی کراچی کے گنجان آبادی والے علاقے ناظم آباد کے رہائشی

 اعجاز حسین نے رنگ وروغن سے بے نیاز4منزلہ عمارت کی چھت پر نعم و نازسے پلے بھاری بھرکم جانوروں کو سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے ہائیڈرولک کرین کے ذریعے زمین پر اتارا، عمارت میں جابجا چاند بیل کے سینگ بھی دیواروں میں نصب دکھائی دے رہے ہیں،،جیسے اکثر لوگ اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں ہرن اور بارہ سنگھے کے سینگ وغیرہ سجاکر لگاتےہیں۔

اعجاز حسین گذشتہ دو دہائیوں سے گھر کی چھت پرقربانی کے جانوروں کی پرورش کررہے ہیں،اس سال عید قرباں کے لیے انھوں نے آج سے ایک سال قبل پنجاب سے لائے گئے،ساہیوال نسل کے 7 بچھڑوں کوگھر کی چھت پر پالا،جو دو دانت کے ہوچکے ہیں،اور مذہبی نقطہ نظر سے قربانی کے قابل ہیں۔

اعجاز حسین کی طرح اس شوق کا مشاہدہ شہر کے دیگر علاقوں لیاقت آباد، بفرزون،  رامسوامی اور نارتھ کراچی اوربرنس روڈ سمیت دیگرعلاقوں میں بھی ملتا ہے،جہاں کچھ لوگ اس وقت سے جانور پالنا شروع کرتے ہیں جب وہ ایک سے دوماہ کے ہوتے ہیں اور دودھ سے گھاس کھانے پر آتے ہیں جبکہ کچھ شہری 6 ماہ جبکہ کچھ سال بھر پہلے سے قربانی کے جانوروں کو گھر کی بالائی منزل یا چھتوں پر پالنے کا اہتمام کرتے ہیں۔

جس وقت ان جانوروں کو عمارت کی چھت سے اتارا جارہا تھا،تو آس پاس اس دلچسپ منظر کو دیکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد جمع تھی،اور ان کی خوشی اورمسرت دیدنی تھی،وہ اس منظر کو مسلسل اپنے موبائل فون کے کیمروں سے عکسبند کرتے رہے جبکہ کئی تو سیلفیاں بھی لیتے رہے،کیونکہ یہ موقع سال میں صرف ایک مرتبہ آتا ہے،جس کا علاقہ مکینوں کو شدت سے انتظار رہتا ہے۔

جانوروں کے زمین پر ٹکتے ہی تالیاں بجاکرداد بھی دی گئی،ویسے بھی بھاری بھرکم مویشیوں کو بلندی سے زمین پر اتارنے کا عمل صبر آزما اور انتہائی مہارت کا متقاضی ہے کیونکہ ماضی میں چھت سے اترتے کئی جانور بلندی سے گرچکے ہیں۔

عموما جو جانور بہت زیادہ شرارت پر آمادہ رہتے ہیں،جن کو ان کی تیزی طراری کی وجہ سے راکٹ بھی کہا جاتا ہے،ان کو نیچے اتارتے وقت آنکھوں پر پٹی بھی باندھی جاتی ہے تاکہ وہ بدک نہ جائیں۔

ادھیڑ عمر اعجاز حسین کےمطابق اس شوق کے پس منظر میں یہ بات کارفرما ہے کہ قربانی کے جانور کی اپنے ہاتھ سے ہر طرح کی خدمت کی جائے،پرورش کے اس عرصے میں وہ اس کو کھلانے پلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے بلکہ ان کے اہل خانہ بھی ان کے ساتھ اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور برسہا برس سے یہ سلسلہ یوں ہی جاری وساری ہے۔

واضح رہے کہ شہری حدود  میں چھتوں پر قربانی کے جانورپالنے پرپابندی عائد ہے،آج سے 2 سال قبل محکمہ سندھ لائیو اسٹاک نے کرین سے جانوروں کواتارنے کے عمل کوغیرقانونی قراردیاتھا،اور کمشنر کراچی سمیت دیگر اداروں کو مکتوب بھی لکھے تھے کہ جانوروں کےساتھ نارواسلوک کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے،جانوروں کو اذیت دینا 1990کے قانون کے تحت جانوروں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version