Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

عشق اور عقل ( 6)

Published

on

  مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ سچا صوفی ایسا فرد ہے کہ اگر اس پر کوئی ناحق تہمت لگائے اور ہر سمت سے ملامت کی بوچھاڑ ہو، تب بھی وہ صبر کے ساتھ یہ سب جھیلتا ہے، تنقید کرنے والوں کے خلاف ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتا۔ وہ الزام کے جواب میں الزام نہیں لگاتا،کوئی اسکا مخالف اور دشمن حتیٰ کہ”غیر“ ہو بھی کیسے سکتا ہے جب اس کے نزدیک کسی غیر کا کوئی وجود ہی نہیں۔ وہ تو خود اپنے نفس سے معدوم ہے، چنانچہ وہ کسطرح کسی کو اپنا دشمن یا مخالف سمجھے جب وہاں صرف اور صرف ایک ہی واحد ذات کی جلوہ نمائی ہے؟ اگر تم اپنا ایمان مضبوط کرنا چاہتے ہو تو اسکے لئے تمہیں اپنے اندر کی سختی دور کرنا ہوگی، چٹان کی طرح مضبوط ایمان کیلئے کسی پرندے کے پروں سے بھی زیادہ نرم دل درکار ہے۔ زندگی میں بیماریاں، حادثات ، نقصان ، تمناؤں کا ٹوٹنا اوراس قسم کے کئی دیگر معاملات ہمارے ساتھ اسی لئے پیش آتے ہیں تاکہ ہمیں رقتِ قلب عطا کریں،ہمیں خودغرضیوں سے نکالیں نکتہ چینی کے رویے تبدیل کریں اور ہمیں کشادہ دلی سکھائیں۔کچھ لوگ تو سبق سیکھ کر نرم ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگ پہلے سے بھی زیادہ سخت مزاج اور تلخ ہو جاتے ہیں۔

مولانا رومی کا کہنا ہے کہ حق تعالیٰ کے قریب ہونے کیلئے ضروری ہے کہ ہمارے قلوب اتنے کشادہ ہوں کہ پوری انسانیت اس میں سما سکے اور اسکے بعد بھی ان میں مزید محبت کی گنجائش باقی رہے۔ کوئی امام، پادری، ربّی اور اخلاقی و مذہبی قائدین میں سے کوئی بھی رب اور تمہارے بیچ حائل نہیں ہونا چاہئیے۔حتیٰ کہ تمہارا ایمان اور تمہارا روحانی مرشد بھی نہیں۔ اپنے اقدار اور اصولوں پر ضرور یقین رکھو لیکن انکو دوسروں پر مسلط مت کرو۔اگر تم لوگوں کے دِلوں کو توڑتے رہتے ہو، تو کوئی بھی مذہبی فریضہ انجام دینا تمہارے لئے سود مند نہیں۔ ہر قسم کی بت پرستی سے دور رہو کیونکہ یہ تمہاری روحانی بینائی کو دھندلا دے گی۔ صرف اپنے رب کو مرشدِ حقیقی سمجھو۔ علم اورمعرفت ضرور حاصل کرو لیکن ان علوم و معارف کو اپنی زندگی کا مقصد مت بناؤاس دنیا میں جہاں ہر کوئی کسی نہ کسی مقام پر پہنچنے اور کچھ نہ کچھ بننے کی جدو جہد کرتا ہے، حالانکہ یہ سب کچھ ایک دن یہیں چھوڑنا پڑے گا، ایسے میں تم صرف اور صرف نایافت اور نیستی کو اپنا مقصد قرار دو۔ زندگی میں اتنے سبک بن جاؤ جتنا کہ صفر کا ہندسہ ہوتا ہے۔ ہم برتن کی طرح ہیں، برتن پر خواہ کتنے ہی نقش و نگار کیوں نہ ہوں لیکن اسکا کارآمد ہونا صرف اس خلا کی وجہ سے ہے جو اسکے اندر ہے، یہ خلا ہی اسے برتن بناتا ہے اور یہی نایافت اور خلا ہمیں بھی درست رکھتے ہیں۔

مولانا رومی کا خیال ہے کہ کسی مقصد کا حصول ہمیں متحرک نہیں رکھتا بلکہ یہی خالی پن کا احساس ہمیں رواں دواں رکھتا ہے۔سرِ تسلیم خم کرنے اور راضی برضا رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بے عمل ہوکر عضوِ معطل ہوجائیں اور نہ ہی یہ جبریت (Fatalism) یا تعطیل (Capitulation)ہے بلکہ یہ تو اسکے بالکل برعکس ہے۔ اصل قوت تسلیم و رضا ہے، ایسی قوت جو ہمارے اندر سے پھوٹتی ہے، وہ لوگ جو زندگی کی الوہی(Divine) حقیقت کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیتے ہیں، و ہ ایسے دائمی سکون اور سکینت میں رہتے ہیں کہ اگر سارا جہان موج در موج فتنوں میں مبتلا ہوجائے تب بھی اس سکون میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔

مولانا رومی کا کہنا ہے کہ اس دنیا میں جہاں ہم رہ رہے ہیں، یکسانیت اور ہمواریت ہمیں آگے لیکر نہیں جاتی بلکہ مخالفت اور تضاد آگے لیکر جاتا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی تضادات ہیں، وہ سب ہم میں سے ہر ایک کے اندر پائے جاتے ہیں۔چنانچہ مومن کیلئے ضروری ہے کہ اندر کے کافر سے ضرور ملے۔کافر کو بھی اپنے اندر کے خاموش مومن کو دریافت کرنا چاہئیے۔ ایمان تدریجی سفر ہے جسکے لئے اسکے مخالف یعنی بے یقینی کا ہونا لازم ہے تاوقتیکہ انسان، انسانِ کامل کے مقام تک جا پہنچے۔ دنیا عمل اور اسکے ردعمل کے اصول پر قائم ہے، نیکی کا قطرہ یا برائی کا ذرہ بھی اپنا ردعمل یا نتیجہ پیدا کئے بغیر نہیں رہتے۔ لوگوں کی سازشوں، دھوکہ دہیوں اور چالبازیوں کا خوف مت کھاؤ،اگر کوئی تمہارے لئے جال تیار کر رہا ہے تو یاد رکھو، اللہ بھی خیر الماکرین ہے۔ پتا بھی اسکے علم اور اجازت کے بغیر نہیں ہلتا۔ بس اللہ پر سادگی سے پوری طرح یقین رکھو۔ وہ جو کچھ بھی کرے، خوبصورتی سے کرتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ خدا باریک بین اور بڑا ہی ماہر گھڑی ساز ہے۔ اتنا درست کہ زمین پر ہر چیز اپنے مقررہ وقت پر وقوع پذیر ہوتی ہے، نہ ایک لمحہ وقت سے پہلے اور نہ ایک لمحہ تاخیر سے اور یہ عظیم گھڑی، بغیر کسی استثناءکے، سبھی کیلئے بالکل ٹھیک اور درست کام کرتی ہے،ہر ایک کیلئے محبت اور موت کا لمحہ مقرر ہے۔ کوئی حرج نہیں اگر زندگی کے کسی بھی مرحلے میں ہم اپنے آپ سے یہ سوال پوچھیں کہ”کیا میں اپنا طرزِ زندگی اور اپنی روش بدلنے کیلئے تیار ہوں؟ کیا میں اپنا آپ بدلنے کیلئے تیار ہوں؟“۔ اگر دنیا میں ہماری زندگی کا ایک دن بھی گزرے ہوئے دن کے مساوی گزرے تو بڑی حسرت کا مقام ہے۔ہر لمحہ ، ہر آن ، اورہر سانس کے ساتھ ہمیں اپنی تجدید کرتے رہنا چاہئیے،نیاجنم لیتے رہنا چاہئیے اور نیا جنم لینے کیلئے ایک ہی طریقہ ہے۔موت سے پہلے مرجانا۔جزو تبدیل ہوتا رہتا ہے لیکن اسکا کل ویسے کا ویسا ہی رہتا ہے۔ دنیا سے جب بھی کوئی چور ڈاکو رخصت ہو، اسکی جگہ لینے کیلئے نیا شخص پیدا کردیا جاتا ہے اور ہر صالح اور ولی کے رخصت ہونے پر کوئی دوسرا صالح اور ولی اسکی جگہ سنبھال لیتا ہے۔ اس طریقے سے بیک وقت ہر شئے تبدیل ہوتی جاتی ہے لیکن مجموعی حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔

 ایک اور جگہ کہتے ہیں کہ محبت کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ مت سوچو کہ مجھے کس قسم کی محبت کی تلاش ہے؟ روحانی یا جسمانی، ملکوتی یا ناسوتی، مشرقی یا مغربی۔ محبت کی یہ تقسیم مزید تقسیم پیدا کرتی ہے۔ محبت کا کوئی عنوان ہے نہ کوئی مخصوص تعریف (Definition)۔ یہ تو سادہ اور خالص چیز ہے بس۔ محبت آبِ حیات ہے اور آتش کی روح بھی۔ جب آتش آب سے محبت کرے، تو کائنات مختلف روپ اور نئے انداز میں ظہور پذیر ہوجاتی ہے۔

  مولانا جلا الدین رومیؒ نے عشق کے جو چالیس نرالے اصول وضع کئے، وہ بھی دراصل اسی عقل کی تخیلق ہیں جسے وہ ناقص کہہ کر ٹھکراتے ہیں اور وہ عشق کو شعور کے بغیر معقول مگر ماورائے ادارک بناتے ہیں حالانکہ اصول بجائے خود ایسی بنیادی سچائی یا تجویز ہے،جو عقیدے یا طرز عمل کے نظام یا استدلال کے سلسلے کی بنیاد کے طور پر کام کرتی ہے، یعنی اصول فی نفسہِ عقل کی اولاد معنوی ہے۔

شاید اسی لئے پروفیسر احمد رفیق اختر کہتے ہیں رومیؒ صوفی نہیں بلکہ فلسفی تھے اور عشق کے چالیس اصولوں کو پڑھ کر یہی لگتا ہے کہ رومیؒ نے مذہب سے قطع نظر کرکے عشق کے تصور کو خالص فلسفیانہ اصولوں پہ استوار کیا۔جس طرح کنفیوشس نے کہا تھا” تصوف مذہب نہیں یہ محض اخلاق ہے اور اخلاق بھی اُن عالی دماغ لوگوں کے لئے جنہیں اخلاق کی ضرورت ہی نہیں ہوتی لیکن مذہب اخلاق کے علاوہ بھی کوئی چیز ہے اور اُس چیزکے بغیر اخلاق ایسی آگ ہے جو دور ہونے کی وجہ سے اپنی حرارت تم تک نہیں پہنچا سکتا“ یعنی تصوف حرارت کے نشتر کو کند کرکے انسانوں کو بغاوت اور الوالعزمی کے جذبات سے محروم کر دیتا ہے۔

اس لئے مولنا رومیؒ کی عشق کی تمثیلی تعریف دراصل عقل، دین اور فطرت سے مارواءایسا نرگسیت آمیز رومان ہے جس میں شریعت کی حدود اور بنوت کی پیروی کا شائبہ تک نہیں ملتا،یہی طریق ہمیں شاہ اسماعیل شہید کی کتاب عبقات میں بھی ملتا ہے،جو شریعت و سنت کو بائی پاس کرکے براہ راست اُس مبداءفیاض سے فیض پانے کا دعوی کرتے ہیں جہاں سے نبیؑ فیضیاب ہوتے آئے، یہ تصوف کی وہ سیکولر اپروچ ہے جس کی اساس وحدت الوجود کے فلسفہ پہ رکھی گئی،اسی تصور سے مغلوب ہو کر منصورحلاج نے انالحق کہہ کر اپنی ذات کو وجود باری تعالی کا جُز تصور کر لیا تھا،تصوف کے اسی فلسفہ کو مشرق و مغرب کے سیکولر اور ہندو مواحد بھی قبول کرتے ہیں اور ایسے ہی خیالات کی بازگشت ہمیں بابا بھلے شاہ، سرمد، شاہ حسین اور خواجہ فرید کی شاعری میں ملتی ہے۔

جاری ہے۔

ملک محمد اسلم اعوان سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں، افغانستان میں امریکا کی طویل جنگ کی گراؤنڈ رپورٹنگ کی، قومی سیاسی امور، معیشت اور بین الاقوامی تعلقات پر لکھتے ہیں، افغانستان میں امریکی کی جنگ کے حوالے سے کتاب جنگ دہشتگردی، تہذیب و ثقافت اور سیاست، کے مصنف ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ ترین9 گھنٹے ago

اولمپکس کی افتتاحی تقریب سے پہلے فرانس میں ٹرین نیٹ ورک پر حملے

تازہ ترین9 گھنٹے ago

جماعت اسلامی نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں مختلف مقامات پر دھرنا دے دیا، مذاکرات کے لیے تیار ہیں، وفاقی وزیر اطلاعات

تازہ ترین10 گھنٹے ago

صدر مملکت نے سپریم کورٹ میں دو ایڈہاک ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی

پاکستان11 گھنٹے ago

عمران خان کی رہائی کے لیے پی ٹی آئی جیل بھرو تحریک شروع کرے، دو گھنٹے کی بھوک ہڑتال مذاق ہے، نثار کھوڑو

تازہ ترین12 گھنٹے ago

ہمارے نام پر ڈالر لے کر وسائل کھائے گئے، بطور وزیراعلیٰ اعلان کرتا ہوں صوبے میں کہیں بھی آپریشن نہیں کرنے دوں گا، علی امین گنڈا پور

پاکستان12 گھنٹے ago

رومانیہ میں پاکستان نیوی کے آف شور پٹرول ویسل پی این ایس حنین کی کمیشننگ تقریب

تازہ ترین14 گھنٹے ago

کراچی میں رات کے اوقات میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی، نیپرا نے کے الیکٹرک کو ہدایت جاری کردی

پاکستان14 گھنٹے ago

پنجاب میں متوفی سرکاری ملازمین کے اہل خانہ کو ملازمت دینے کا قانون ختم

مقبول ترین