Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

کالم

میں انکار کرتی ہوں

Published

on

احمد فراز نے کہا تھا

زخم کو پھول تو صَرصَر کو صبا کہتے ہیں
جانے کیا دور ہے ، کیا لوگ ہیں، کیا کہتے ہیں​

بھارت کی ایک نمایاں شاعرہ بلقیس ظفیرالحسن نے اسی مضمون کو یوں لفظوں میں ڈھالا تھا۔

زخم کو پھول کہیں نوحے کو نغمہ سمجھیں

اتنے سادہ بھی نہیں ہم کہ نہ اتنا سمجھیں

وطن عزیز جن حالات سے گزر رہا ہے، ان کی منظر کشی ان دو اشعار سے خوب ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ احمد فراز نے سوال کیا تھا کہ کیا دور ہے، کیا لوگ ہیں ، کیا کہتے ہیں، جبکہ بلقیس ظفیرالحسن نے جواب میں کہا تھا اتنے سادہ بھی نہیں ہم کہ نہ اتنا سمجھیں۔

سادہ لوگوں کی دنیا میں کبھی کمی نہیں رہی، کچھ سادہ لوح انسان جعلی پیروں فقیروں کے ہاتھوں لٹتے ہیں، کچھ بنارسی ٹھگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور کچھ کو سیاسی شعبدہ باز اس قدر لبھاتے ہیں کہ وہ سوچنے سمجھنے کی خداداد صلاحیت کا استعمال ترک کر کے شعبدہ باز کی ہر جھوٹی سچی بات پر آنکھیں بند کر کے ایمان لے آتے ہیں اور پھر وہ شعبدہ باز ان سادہ لوحوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دین، دنیا، مذہب، ریاست سب سے بیگانہ کر کے دیوانگی کی اس حد تک لے جاتا ہے کہ وہ جنونی جتھوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

یہ جنونی جتھے ریاست، آئین، قانون، سماجی اقدار سب کو جھٹلا کر سیاسی شعبدہ باز کے کہے پر چلتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اپنے شعبدہ باز لیڈر کی راہ میں رکاوٹ سمجھی جانے والی ہر شے کو توڑ پھوڑنے پر اتر آتے ہیں۔

عام آدمی کو تو خیر چھوڑیں کہ وہ ہر وقت نئے امیر، نئے کارواں کی تلاش میں رہتے ہیں کہ جانے کب کون ان کی قسمت کو بدل ڈالے لیکن ریاستی اداروں میں بیٹھے لوگ جب یہ بھول جائیں کہ آئین کے تابع ادارے ہیں، یااداروں کے تابع آئین، اس سے بھی اہم یہ کہ آئین کو بچانا کس کا کام ہے؟۔

یہاں سب آئین کی بات تو کرتے ہیں، اس کے حوالے بھی دیتے ہیں لیکن یہ حوالے  من مرضی کی تشریحات کے ساتھ ہوتے ہیں، اپنا کام نکالنے کو، یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے جب بھی کسی آمر کو ضرورت پڑی تو کوئی نہ کوئی اعلیٰ قانونی دماغ اس کی مرضی کی تشریحات گھڑنے کو موجود تھا، کچھ اور اعلیٰ قانونی دماغ ان تشریحات پر عدالت کی مہر ثبت کرنے کو تیار بیٹھے تھے۔

اسی ملک میں طاقتوروں  کی مرضی سے ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے والے آئین و قانون کے رکھوالے تھے۔ اسی ملک میں دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کے قتل کا مقدمہ آج تک حل طلب ہے، تین بار ووٹ کی طاقت سےوزیر اعظم بننے والے کو پانامہ کے مقدمے میں اقامہ کی بنیاد پر گھر بھیج دیا گیا۔ ہر بار آئین و قانون کے رکھوالے آئین و قانون کے نام پر یہ خدمات انجام دے رہے تھے۔

اس بار کچھ انوکھا ہوا ہے، طاقتوروں کے اشاروں پر کام کرنے والے خود کو طاقتور سمجھ بیٹھے ہیں،اس قدر طاقتور کہ آئین و قانون سے بھی غرض نہیں،کرپشن کے مقدمے میں گرفتار ملزم کے لیے آئین و قانون ایک طرف رکھ کر کمرہ عدالت میں اس کا سواگت کیا گیا، منصف اعلیٰ نے ملزم سے کہا، ویلکم ویلکم بہت خوشی ہوئی آج آپم کو دیکھ کر ۔۔ گرفتاری کے بعد ملک بھر میں جلاؤ گھیراؤ کے سبب عام شہری گھروں میں چھپنے پر مجبور تھا، بلوائی ہر طرف آگ لگارہے تھے، ہر سامنے آنے والی گاڑی کو توڑ رہے تھے، سرکاری و نجی املاک بلا امتیاز نشانے پر تھیں اور منصف اعلیٰ ملزم سے درخواست کر رہے تھے، کہ اس جلاؤ گھراؤ کی مذمت میں کچھ کہہ دیں۔

منصف اعلیٰ کی یہ درخواست بے اعتنائی سے رد کردی گئی اور جواب آیا کہ مجھے کیا علم باہر کیا ہوا، مجھے تو حراست میں جس کمرے میں رکھا گیا وہاں ٹیلی وژن کی سہولت ہی نہیں تھی، اس جواب کو قبول کر لیا گیا۔

گرفتاری کو غیرقانونی کا فیصلہ دیتے ہوئے ایک اور مکالمہ ہوا جو ملکی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ قاضی القضا نے کہا، پولیس گیسٹ ہاؤس میں ٹھہریئے، دس لوگ ہوں گے، گپ شپ لگائیں، سو جائیں اور صبح اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہو جائیں۔

جب یہ مکالمہ ہو رہا تھا تب ملک کے کئی شہروں میں ایمبولینسز سے ٹرپتے شہریوں کو نکال کر جلایا جا رہا تھا، انتہائی نازک حالت میں ہسپتال جانے والے مریض رستے بند ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر جان دے رہے تھے،نجی املاک جلائی جا رہی تھیں، سکیورٹی تنصیبات پر حملے ہو رہے تھے۔اس مکالمے کے ساتھ ملک بھر میں لگی اس آگ کو معمولی واقعہ سمجھ کو نظرانداز کردیا گیا۔آنے والے دنوں میں اس جلاؤ گھیراؤ کے واقعات کے مقدمات پر کلین چٹ دے دی گئی تو حیرت نہیں ہونی چاہئے۔

پسند کے منصفوں کا انتخاب بھی ایک شخصیت اور جماعت کا حق تسلیم کیا گیا،اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کم از کم مجھے تو حیران کردیا۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو کہا جا رہا ہے آپ کا تعصب واضح ہے آپ  بنچ تبدیل کرنے کا فیصلہ دیں۔بھری عدالت میں معزز جج کو طعنے دیئے جاتے ہیں، یہ نعرہ بھی بلند ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے جج ہیں آپ۔

عمران خان کو نہ صرف یہ القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت ملی بلکہ توشہ خانہ فرد جرم عائد ہونے کے نشانات بھی مٹا دیئے گئےساتھ ساتھ عمران خان کو یہ رعایت بھی ،دی گئی کہ وہ کسی بھی اور مقدمے میں پیر کے روز تک گرفتار نہیں کئے سکتے،ایساکوئی بھی مقدمہ جو عدالت کے بھی علم نہیں ،اس فیصلے اور اس عدالتی عمل کو نہیں مانتی۔

اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے یہ شخصیات کی آپسی جنگ ہے،اس جنگ میں تین بار کے وزیراعظم کو اقتدار سے بیدخل کر کے پہلے جیل اور پھر بیرون ملک رہائش اختیار کرنے پر مجبور کیا، اس مقصد کے لیے عمران خان کو استعمال کیا گیا، تب نواز شریف کو نکالنے کے لیے عمران خان اور طاقتور ادارے ساتھ ساتھ کھڑے تھے، کب عمران خان او طاقتوروں کی راہیں جدا ہوئیں، کیوں ہوئیں، کوئی سچ نہیں بتاتا لیکن اس آپسی جنگ میں پورے ملک کو میدان جنگ تصور کر لیا گیا ہے،میں اس جنگ کا حصہ بننے سے انکار کرتی ہوں، ملک کو میدان جنگ بنانے کی مخالفت کرتی ہوں۔

نواز شریف کو نکالنے اور ناہل قرار دینے کے بعد عمران خان کو نااہل کرنے کی کسی کی خواہش ہے تو کوشش کر دیکھے، کسی ادارے سے کسی نے حساب برابر کرنا ہے تو وہ بھی اپنی سی کاوش کر لے،لیکن خدارا اس خواہش اور کاوش میں عام پاکستانی کا خون بہانے اور اس کی املاک جلانے، اسے بیروزگار کرنے کے ہتھکنڈے ترک کئے جائیں، ہم اس جنگ سے بیزاری کا اعلان کرتے ہیں۔

عمران خان کاحق ہے کہ ایک پاکستانی کی حیثیت سےان کے بنیادی انسانی حقوق سلب نہ کئے جائیں لیکن میں “عمرانی حقوق” سے انکار کرتی ہوں، اس ملک میں آئین بچانے کے نام پر بہت سی لڑائیاں لڑی گئیں لیکن یہ آئین اپنے خالق کو نہیں بچا سکا، اب آئین بچانے کے نام پر کسی نئے کھلواڑ کو ماننے سے انکار کرتی ہوں۔

آئین کی آڑ میں اس ملک کے ساتھ مزید کسی کھلواڑ کو برداشت کرنے سے میں اس سے انکار کرتی ہوں۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے شاعر عامر عزیز نے لکھا ہے؎

تم عدالتوں سے بیٹھ کر چٹکلے لکھو
ہم سڑکوں، دیواروں پہ انصاف لکھیں گے
بہرے بھی سن کے اتنی زور سے بولیں گے
اندھے بھی پڑھ لیں، اتنا انصاف لکھیں گے

تم کالا کنول لکھو ہم لال گلاب لکھیں گے
تم زمین پہ ظلم لکھ دو آسماں پہ انقلاب لکھا جائے گا
سب یاد رکھا جائے گا، سب کچھ یاد رکھا جائے گا

ثنا بچہ سینئر اینکرپرسن اور تجزیہ نگار ہیں، مختلف ٹی وی چینلز کے پولیٹیکل شوز میں شریک ہوتی ہیں،انگریزی زبان کے ٹی وی چینل سے کیرئیر کا آغاز کیا، کئی ٹی وی چینلز پر سیاسی ٹاک شوز کی میزبان رہیں، ملکی سیاست کے علاوہ خارجہ تعلقات، جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے امور پر لکھتی ہیں،کنگز کالج لندن سے پولیٹیکل سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین