ٹاپ سٹوریز
منٹو ایک واقعہ کاعنوان ہے،ادبی تاریخ کے سب سے اہم،بامعنی اورمکمل واقعہ کا
یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے ۔اس کے سینے میں فن افسانہ نگاری کےسارے اسرار و رموزدفن ہیں ۔۔۔
وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچےسوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے۔۔ یا خدا۔۔
منٹو نے کے یہ جملے جو اس نے ایک چاہنے والے کو آٹو گراف پر لکھ کر دیئے تھے، یہ جملےاس کی شخصیت و فن کا مکمل اظہار ہیں۔
سعادت حسن منٹو کا آج یوم پیدائش ہے، منٹو کا اردو ادب اور افسانے میں ظہور ایک واقعہ ہے۔ منٹو کے ظہور کو شمیم حنفی نے واقعہ قرار دیا اور لکھا :
منٹو ایک واقعے کا عنوان ہے، ہمارے افسانوی ادب کی تاریخ کے شاید سب سے اہم اور بامعنی اور مکمل واقعے کا۔ اس واقعے کا آغاز اس کی پہلی کہانی کے ساتھ ہوا تھا۔ اب اگرآپ کسی ادبی مؤرخ سے رجوع کریں تو وہ بتائے گا کہ اس واقعے کا نقطہ اختتام 1955ء کے ماہ جنوری کی 18ویں تاریخ ہے ۔ وہ لمحہ جو خود منٹو کے لیے اس واقعے کے تسلسل سے بیزاری کا شدید ترین لمحہ تھا اور جب مرنے سے پہلے بارباراس کے ہونٹوں پر یہ الفاظ آئے تھے کہ” اب یہ ذلت ختم ہو جانی چاہئے”۔ لیکن یہ ایک ایسی ذلت تھی جو منٹو کی موت کے ساتھ بھی ختم نہ ہو سکی۔ اس لمحے نے منٹو کو اپنے مقدمات کی پیروی سے تو نجات دلا دی مگر آنریبل جسٹس دین محمد ، جنہوں نے منٹو کے وجود کو ننگ ادب قرار دیا تھا،اس لمحے کے بعد بھی زندہ رہے اورمنٹو کی ذلت کے ساتھ ساتھ ایک فرقہ ملامتیہ کا قصہ بھی چلتا رہا ۔ اصل میں افراد چاہے رخصت ہوجائیں،سوچنے،جینے اورزندگی کو برتنے کے اسالیب،جنہیں ہم کسی فرد سے مختص کرسکیں،جوں کے توں قائم رہتے ہیں۔ چنانچہ ایک اسلوب منٹو کی ذات تھی جو اپنے طبیعی اور زمانی رشتوں سے انقطاع کے بعد بھی زندہ ہے۔ اسی طرح ایک اوراسلوب ملامت،دشنام اور احتساب کا وہ قہر بے پناہ ہے، جس کا سرچشمہ کبھی میزان عدل کے تماشہ گر رہے، کبھی ترقی پسند اور تعمیرپسند ناقداورقاری۔ سو یہ اسلوب بھی کسی نہ کسی سطح پراب تک سانسیں لیے جارہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ یہ اندوہناک سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک زندگی سے آنکھیں چار کرنے اور زندگی سے آنکھیں چرانے کا طورعام رہے گا۔
منٹو کون ہے؟ کیاہے اس پربہت بحث اس کی زندگی کے دوران اوراس کے بعد بھی ہوئی۔ فلمی دنیا میں منٹو کے ساتھ کچھ وقت بتانے والے ادیب اور شاعر اوپندر ناتھ اشک نے منٹو کی وفات کے بعد ایک کتاب لکھی، جس کا نام ہے، منٹو میرا دشمن، اس کتاب میں منٹو سے دوستی اور باہم محبت کا دعویٰ بھی ہے لیکن منٹو کی شخصیت کو جس ڈھنگ سے پیش کیا گیا،وہ منٹو کے چاہنے والوں کے لیے ناگوار تھا۔
اوپندرناتھ اشک کی کتاب سے ایک اقتباس پیش ہے تاکہ اندازہ ہو سکے کہ اوپندر ناتھ اشک نے کیا کیا کچھ لکھا ہوگا اور اس کے پیچھے بغض یا عناد چھپا تھا،جس کا دعویٰ بعد میں ”منٹو میرا دوست” کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب کا محرک بنا۔
:اوپندر ناتھ اشک لکھتے ہیں
منٹو کی اور میری افتاد میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ وہ لڑکپن ہی سے دینو یا فضلو کمہار کی دکانوں کے اوپرچوباروں میں جمنے والی جوئے کی محفلوں میں شامل ہوتا یارات کوخواب بھی فلاش ہی کے دیکھتا تھا اور میں نے کبھی تاش کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ وہ رند بلانوش تھا اورمیں نے شراب تو دور رہی، سگریٹ بھی پہلی بار 1942ء میں پیاتھا جب میں 32برس کاتھا۔ اس نے کٹڑہ گھونیاں ہو،ہیرا منڈی ہویا فارس روڈ، اس بازارکی خوب سیر کی تھی اور میں نے ادھر جھانک کر بھی نہیں دیکھا۔ بات یہ ہے کہ ماں نے بچپن ہی سےان تینوں کے خلاف سخت نفرت میرے دل میں بھر دی تھی۔
:ایک اور جگہ اوپندر ناتھ اشک لکھتے ہیں
مجھے منٹو نے فلمستان میں کام کرنے کے لیے بمبئی بلایا تھا۔ میرے بمبئی پہنچنے کے دوسرے یا تیسرے دن کا ذکر ہے، ہم وکٹوریہ میں آمنے سامنے بیٹھے گرانٹ روڈ کوجارہے تھے۔ منٹو نے تھوڑی پی رکھی تھی۔ اچانک اس نے انگریزی میں کہا:
I like you, though I hate you.
:اوپندر ناتھ اشک ایک اور مقام پر لکھتے ہیں
ڈیڑھ سال بعد ہم فلمستان کی کینٹین میں بیٹھے تھے،لنچ کا وقت تھا۔ منٹو کی میز پرحسب دستورراجہ مہدی علی خان، واچا وغیرہ دوایک دوست تھے۔ میں برابر کی میزپراپنی یونٹ کے چند دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔نہ جانے کیسے ہندوؤں کی واہ کرم سنسکاراور کیال کریا،یعنی مردے کی کھوپڑی کو توڑنے کی رسم،کا ذکر چلا تو منٹو نے دانت پیس کر کہا :
اشک جب مرے گا تو اس کی کیال کریا میں کروں گا۔
اوپندر سنگھ اشک نے منٹو کی شخصیت پر ہی انگلی نہیں اٹھائی بلکہ ان کے افسانوں کے بارے میں بھی کچھ ایسا لکھا اورمنٹو کے دوستوں سےایسا کچھ کہاجو منٹو کے دوستوں کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتا۔اس حوالے سے :اوپندر سنگھ اشک خود لکھتے ہیں
چونکہ لکھنا میں نے کرشن،منٹو اور یدی سے پہلے شروع کردیا تھا،عمر میں بھی تینوں سے بڑاہوں اوراس وقت تک میرے کچھ مشہور افسانے، ڈاچی، کونپل اور قفس وغیرہ لکھے جاچکے تھےاور مترجم کو میں طبع زاد لکھنے والے سے کمتر سمجھتا تھا،اس لیے میری نظروں میں منٹو کی کوئی خاص وقعت نہ تھی۔ظاہر ہے کہ،خوشیا،پڑھتے وقت بھی میں پہلے سے مصنف کے خلاف بدظن تھا۔ خوشیا،مجھے بہت اچھا بھی نہیں لگا،حالانکہ منٹو کی کہانیوں میں اسے خاصا درجہ حاصل ہے اور بنیادی خیال کو منٹو نے بہت اچھی طرح نبھایا ہے،تو مجھے یہ اعتراض تھا کہ خوشیا حقیقی کردارنہیں، بلکہ مصنف کے دماغ کی اختراع ہے۔ میرے ایک دوست اس زمانے میں باقاعدہ اس گلی کی سیر کرتے تھے اوران کی وساطت سے مجھے اس کے آداب و قواعد سے خاصی واقفیت تھی۔ نچلے طبقے کی طوائفوں کے(جیسی کہ خوشیاکی کانتا ہے) دلال ان سے پہلے ہی جسمانی طور پر متعارف ہوجاتے ہیں،یہ بات میں یقینی طور پرجانتا تھا،اسی لیے میرا خیال تھاکہ خوشیا کا کردارغیرحقیقی ہے۔ بیدی نے جب خوشیا کے بارے میں میری رائے پوچھی تواس وقت غیر شعوری طور پر یہ باتیں میرے دماغ میں تھیں۔ یوں بھی پھکڑ پنے کے دن تھے، کسی چیز پراتنی سنجیدگی سے غور کرنے کی عادت نہ تھی، جو منہ میں آیا بک دیتے تھے، اس لیے میں نے کہا :
دو کوڑی کی کہانی ہے
یہ تو تھے اوپندر ناتھ اشک کے خیالات اور ان کی کتاب کی کہانی۔ ان کی کتاب کے جواب میں ڈاکٹر کیول دھیر نے کتاب شائع کی، منٹوع میرا دوست، اس کتاب میں منٹو کے دوستوں اور چاہنے والوں کے مضامین جمع کئے گئے۔ کیول دھیر لکھتے ہیں
منٹو میرا دشمن، 1960ءکے آس پاس پہلے ہندی زبان میں شائع ہوئی تھی اور بعد ازاں اس کی اشاعت اردو میں ہوئی تھی، ردعمل بہت شدید ہوا۔ اشک نے نہ صرف منٹو کے بارے میں بلکہ راجہ مہدی علی خان، راجندر سنگھ بیدی، دیوندرستیارتھی اور کئی دوسرےہم عصرقلم کاروں کے خلاف نہ صرف نازیبا الفاظ کا استعمال کیا بلکہ اپنے آپ کو ان سب سے برتر ثابت کرنے کی کوشش بھی کی۔ راج کمل چودھری، دھرمیندرگپت اور کئی دوسرے ہندی قلم کار اشک کی اس حرکت سے ناراض ہوئے، انہوں نے سخت نکتہ چینی کی اور باقاعدہ ایک بحث شروع ہو گئی۔
منٹو میرا دوست، میں پہلا مضمون خود منٹو کی تحریر ہے، جس کا عنوان ہے، مجھے مقام کی تلاش ہے۔ منٹو لکھتے ہیں:
مجھے آپ افسانہ نگار کی حیثیت سے جانتےہیں اورعدالتیں ایک فحش نگار کی حیثیت سے،حکومت کبھی مجھے کمیونسٹ کہتی ہےاورکبھی ملک کابہت بڑا ادیب۔ کبھی میرے لیے روزی کے دروازےبند کئےجاتے ہیں، کبھی کھولے جاتے ہیں۔ کبھی مجھے غیرضروری انسان قراردے کر’’مکان باہر‘‘ کا حکم دیا جاتا ہے اور کبھی موج میں آکر کہہ دیا جاتا ہے کہ نہیں تم ’’مکان اندر‘‘رہ سکتے ہو۔ اب بھی سوچتا ہوں کہ میں کیا ہوں اس ملک پاکستان میں،جسے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کہا جاتا ہے، میرا کیا مقام ہے؟ میرا کیا مصرف ہے؟
پھر اسی مضمون میں منٹو اس کا جواب بھی دیتے ہیں:
میں کچھ بھی ہوں، بہرحال مجھے اتنا یقین ہے کہ میں انسان ہوں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ مجھ میں برائیاں بھی ہیں اوراچھائیاں بھی۔ میں سچ بولتاہوں اور بعض اوقات جھوٹ بھی بولتا ہوں،نمازیں نہیں پڑھتا لیکن سجدے میں نے کئی دفعہ کئے ہیں،کسی زخمی کتے کو دیکھ لوں توگھنٹوں میری طبیعت خراب رہتی ہے،لیکن مجھے توفیق نہیں ہوتی کہ میں اسے اٹھا کرگھر لے جاؤں اور اس کا علاج معالجہ کروں ،کسی دوست کو مالی مشکلات میں گرفتار دیکھتا ہوں تو میرے دل کو دکھ ہوتا ہے لیکن میں نے اکثر موقعوں پراس دوست کی مالی امداد نہیں کی اس لیے کہ مجھے شراب خریدنا ہوتی تھی۔
منٹو نے اس مضمون میں اپنی بشری خامیوں کا خود اعتراف کیا لیکن دنیا، عدالتوں،حکومتوں اورعام انسانوں نے کبھی کھل کراپنی برائیاں تسلیم کرنا تو درکنار،ان برائیوں کی طرف توجہ دلانے والے کو بھی اچھا نہیں سمجھا اور یہی حال منٹو کا کیا۔
منٹو میرا دوست میں شامل مضامین میں منٹو کی خوبیوں اور بڑائی کا اعتراف کیا گیا لیکن ان اعترافات کواس کے دوستوں کے اعترافات سمجھا گیا۔اب بھی منٹو پر انگلی اٹھانے اور برا کہنے والوں کی کمی نہیں ۔ لیکن کرشن چندر کی نظر میں منٹو ادب کا اکیلا شنکر تھا، کرشن چندر نے لکھا:
منٹو نے زندگی کے مطالعے میں اپنے آپ کو مومی شمع کی طرح پگھلایا ہے وہ اردو ادب کا اکیلا شنکر ہے جس نے زہرکو خود گھول کرپیا ہے اور پھر اس کے مزے کو، اس کے رنگ کو کھول کھول کر بیان کیا ہے۔
احمد ندیم قاسمی نے مضمون، منٹو!میرا یار، میں لکھا:
منٹو کو سارا ہندوستان اور پاکستان جانتا تھا مگراسے بہت کم لوگ پہچانتے تھے، منٹو سے جن لوگوں کی ملاقات نہیں ہوئی تھی وہ اسے ہتک، خوشیا اور کالی شلوار کے کرداروں سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ جن لوگوں نے منٹو سے بالمشافہ باتیں کی تھیں وہ اس کی بڑی بڑی چمکیلی آنکھوں اور بے تکلفانہ انداز گفتگو سے اسے مغروراور خودپرست انسان سمجھتے تھے لیکن دراصل منٹوکا دل فولادی استقلال اور گلابی خلوص کا دلآویز مرکب تھا۔
منٹو کو سکول کے دنوں سے جاننے والے آغا خلش کاشمیری لکھتے ہیں:
منٹو کبھی کسی جماعت کا آلہ کار بننا گوارہ نہ کرتا تھا۔ اس کی نظر میں ساری دنیا ایک فراڈ تھی۔ وہ نہ رجعت پسند تھا نہ ترقی پسند۔ وہ ہمیشہ اس بات پر مصر رہا کہ لوگ منٹو کو وہی عینک لگا کر پڑھیں جس سے اس کے خد وخال ٹھیک نظرآ سکیں۔
منٹو پر فحش نگاری کے مقدمات میں ان کی وکالت کرنے والے ضیاء الدین قادری نے لکھا اوربالکل سچ لکھا:
جب تک عوام میں ادبی ذوق باقی رہے گا تب تک منٹو کی شخصیت اور اس کے فن کے لیے چاہت، پیار اور حسن زندہ رہے گا۔