Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

ٹاپ سٹوریز

مرزا داغ دہلوی،حسن و عشق کے چرچے،محبت کی گھاتیں، عیش و عشرت کی راتیں

Published

on

وبصورت چہروں کے دلدادہ،محبوب کے بچھڑنے کے غم کو سینے کا داغ بنانے کی بجائے جلد نئی محبت تلاش کر لینے والے نواب مرزا داغ  دہلوی کی آج سالگرہ ہے۔ پچیس مئی 1831ء کو پیدا ہونے والے نواب مرزا داغ کم سنی میں ہی یتیم ہو گئے تو انہیں ولی عہد مرزا فخرو کی سرپرستی میسر آئی۔ قلعہ معلیٰ کے  ماحول میں کی زندگی کا زیادہ حصہ حسن و عشق کی رنگ رلیوں میں گزرا۔

وہ بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی تک رؤسا، نوابوں اور بادشاہ کے لطف و کرم سے فیضیاب ہوتے رہے۔ اس باعث وہ  ایسی فضا میں پروان چڑھے جہاں کا ماحول قبل از وقت جوان بنا دیتا ہے۔  اس ماحول میں حسن و عشق کے چرچے تھے، محبت کی گھاتیں تھیں اور عیش و عشرت کی راتیں تھیں۔

اس ماحول میں پل کر جوان ہونے والے مرزا داغ نے شاعری کی تو اس میں زندگی کا کوئی نیا نظریہ تھا نہ کوئی فلسفہ،اس لیے ان کی شاعری میں معشوق، عاشق، ناصح اور قاصد جیسے روایتی کردار ملتے ہیں۔ بزم یار اور کوچہ دلدار کی سرگرمیاں بھی اردو میں عام تھیں لیکن داغ کو غیر معمولی شہرت ملی ، اس کی وجہ ان کا انداز بیان  اور پھر سادہ زبان ہے۔ اس سے پہلے شاعر ایسی وارداتیں  اس انداز سے بیان کرتے کہ وہ خاص اور پڑھے لکھے  طبقے کی سمجھ تک کی بات ہوتی لیکن داغ کی سادہ زبان نے بیک وقت عام و خاص کو گرویدہ بنا لیا۔

مضامین چکبست میں داغ کی شاعری پر تبصرہ کچھ یوں ہے:

داغ کی شاعری کے لیے سب سے زیادہ موزوں لقب’عیاشانہ شاعری ‘ہے۔داغ کا کلام انہیں لوگوں میں ضرورت سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے جو اعلیٰ درجے کی شاعری سے واقف نہیں ہیں۔ارباب نشاط کا فرقہ داغ کو اپنا پیامبر سمجھتا ہے۔ داغ کی شہرت محض اس لیے ہے کہ ان کا کلام ان جذبات اور خواہشات نفسانی کی تصویر ہے جو عوام کے دل میں امنگ پیدا کرنے کے لیے جادو کا اثر رکھتی ہے۔

داغ کی عام و خاص میں مقبولیت کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ  ان کے شاگردوں کی تعداد پانچ ہزار سے زیادہ ہے  جو ایک ریکارڈ ہے۔ ان شاگردوں میں کئی بڑے نام ہیں  اور ایک نام ہے اقبال کا ، مصور پاکستان اور فلسفی شاعر کہلانے والے علامہ محمد اقبال کا داغ کا شاگرد ہونا ریکارڈ پر ہے، ایک شاعر، فلسفی اور مفکر کی پہچان پانے والے نے ابتدائے سفر میں داغ کو استاد چنا،جن کی شاعری میں فلسفہ اور نیا نظریہ نہیں لیکن پھر اقبال نے راہ بدل لی ، اس کے باوجود اقبال آخر دم تک ان کے مداح رہے اور داغ کی وفات پر مرثیہ بھی لکھا۔

داغ  صرف شاعری کی حد تک  حسن و عشق کے دیوانے نہیں تھے، ان کے کلام، ان کی زندگی اور ان کے خطوط سے سب عیاں ہے کہ وہ عیش اور ہوس پرستی  میں کسی سے پیچھے نہیں تھے۔ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی  کے بقول:

اس زمانے میں عام شاعروں کا یہ حال تھا کہ شراب پیتے تھے اور طوائفوں سے عشق کرتے تھے لیکن شعر تصوف کے کہتے تھے۔

داغ  طوائفوں کے ساتھ تو تعلق رکھتے تھے لیکن شراب نہیں پیتے تھے۔مولوی افتخار عالم  نے ان کے بارے میں لکھا:

حالات نے ایسا ساتھ دیا کہ وہی داغ جو دلی اور رام پور میں اپنے جوش جوانی کے بل پرمحبت کی بازی لگایا کرتے تھے، حیدرآباد پہنچ کر التفات کو اپنے پیسے کے زور سے خریدنے  کے لائق ہوگئے۔

داغ کے بعض سعادت مند شاگردوں اور عقیدت مندوں مثلا احسن مارہروی، تمکین کاظمی وغیرہ نےکوشش  کی ہے کہ انہیں پاکباز ثابت کریں اور  دکھائیں کہ طوائفوں سے ان کا تعلق صرف گانا سننے تک محدود تھا یا اپنے کلام کی شہرت کے لیے تھا لیکن ان کے ہم عصروں نے ان کے جو حالات بتائے ہیں اس کی وجہ سے پردہ داری ممکن نہیں تھی اور پھر داغ کے خطوط میں بھی سب کھل کر سامنے آجاتا ہے۔

سرکار نظام سے وابستہ ہونے تک داغ کے مالی حالات اچھے نہیں تھے۔ رام پور میں داغ مقروض بھی تھے۔شروع میں تو داغ طوائفوں کو مہینے میں دو تین بار بلوا لیتے تھے لیکن جب حیدرآباد میں پیسے کی فراوانی ہوئی تو انہوں نے طوائفوں کو مستقل ملازم رکھ لیا تھا۔

ایک طوائف منی بائی حجاب سے ان کا طولانی عشق تھا، اس کی خاطر داغ  نے کلکتہ کا سفر بھی کیا۔داغ  کا منی بائی حجاب کے ساتھ تعلق 1879 ء میں بنا،جب نواب کلب علی خان کے چھوٹے بھائی  حیدر علی خان نے منی بائی حجاب کو ایک میلے میں دعوت دی تھی۔

داغ منی بائی حجاب کو دل دے بیٹھے،دوسرے سال میلے میں مرزا نے دعوت بھجوائی لیکن حجاب نے حیدر علی خان کی بے التفاتی کی وجہ سے آنے سے انکار کیا، مرزا کے اصرار پر حیدرعلی خان نے دعوت نامہ بھجوا دیا ، حجاب حیدر علی خان کے یہاں ٹھہری لیکن کچھ اچھا سلوک نہ ہونے پر داغ کے یہاں مقیم ہوئی، دو ماہ داد عیش دینے کے  بعد کلکتہ آنے کی دعوت دے کر واپس روانہ ہوئی اور پھر کلکتہ سے اس کا اصرار بڑھتا ہی چلا گیا۔

کلکتہ میں ایک ماہ قیام کے دوران داغ نے کئی مشاعروں کی صدارت کی اور راتوں کو  حجاب کے مہمان رہے۔ ایک ماہ بعدنواب رام پور نے فوری طلبی کا پیام بھیجا،ابھی ان کی رخصت باقی تھی لیکن نمک اور نواب کی محبت نے واپس لوٹنے پر مجبور کیا، حجاب روکتی رہی لیکن داغ کو جانا پڑا۔

داغ نے اس کے بعد کئی بار کلکتہ کا قصد کیا لیکن نہ جاسکے،حجاب کو بلاتے رہے اور وہ بھی نہ آ پائی، بیوی کی وفات کے بعد داغ نے حجاب سے نامہ و پیام کا پھر سلسلہ کیا اور وہ نکاح کی شرط پر حیدرآباد آنے کو تیار ہوئی۔ حیدرآباد پہنچ کر نکاح کی ضد رہی لیکن بالآخر ملاقات ہوگئی، اس وقت حجاب کی عمر چالیس سال تھی، وہ خضاب لگاتی تھی اور چند دانت بھی مصنوعی تھے لیکن مولوی افتخار احمد  نے حجاب کا مکمل حلیہ لکھا اور اس کا آخری جملہ یوں تھا:

حسن رفتہ کی دیدہ زیب اور خوش منظر یادگار

حجاب پہلے پہل داغ  کے قدیم مکان میں رہی پھر رشتہ داروں کے اعتراض پر داغ نے کرایہ پر مکان لے دیا۔حجاب کو داغ دو سو روپیہ ماہانہ کفالت کے دیتے رہے۔ حجاب دو سو روپیہ ماہانہ کے باوجود ادھر ادھر سے قرض لیتی رہی، داغ کو علم ہوا تو ناراض ہوئے اور پھر ناچاقیاں بنتی چلی گئیں اور حجاب کلکتہ لوٹ گئی۔

حجاب سے ناچاقی کی وجوہات میں ایک وجہ اختر جان طوائف بنی جو دو سو روپیہ ماہوار پر داغ نے ملازم رکھی ہوئی تھی۔داغ کی ملازم طوائفوں میں سب سے پہلی صاحب جان تھی جو معمولی صورت کی تھی لیکن گاتی خوب تھی اور چوٹی کے شعرا کا کلام یاد تھا۔

اس کے بعد داغ   نے میرٹھ کی عمدہ جان کو ملازم رکھا  جو طرح دار بھی اور حاضر جواب بھی، گانے میں بھی اس کا جواب نہ تھا۔آخری زمانے میں اختر جان کو ملازم رکھا جو نوعمر اور حسین تھی اور گاتی بھی خوب تھی۔ تمکین کاظمی  نے داغ کی سوانح لکھی جس میں اختر جان کے متعلق لکھا:

حجاب آئی اور چلی گئی مگر اختر جان کا اختر اقبال جگمگاتا رہا۔

داغ کا زندگی کے بارے میں ایک ہی نظریہ تھا کہ زندگی آرزوئے مسلسل، ایک انہماک کامل اور شوق ناتمام کا نام ہے جس میں لذت ہے، عیش ہے اور تنوع ہے مگر اس میں درد و کرب اور سوز و تپش کی آمیزش نہیں ، وہ ’کھاؤ پیو اور مزے اڑاؤ‘  کے اصول پر عمل پیرا  تھے۔انہوں  رند ہونے پر  تصوف کا پردہ نہیں ڈالا۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین