پاکستان
لاپتہ افراد کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ نے جرمانوں کے خلاف سیکرٹری دفاع، داخلہ اور کمشنر اسلام آباد کی درخواستیں خارج کردیں
لاپتہ افراد کی بازیابی کےکیس میں سنگل بینچ کے افسران پر کیے گئے جرمانوں کے فیصلے کے خلاف وفاق کی تمام انٹرا کورٹ اپیلیں خارج کردی گئیں لاپتہ افراد کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہریوں کی عدم بازیابی پر سیکرٹری دفاع ، داخلہ، چیف کمشنر اور پولیس افسران پر جرمانوں کے خلاف اپیلیں خارج کر دیں ۔
سنگل بینچ کی جانب سے شہریوں کی عدم بازیابی پر سیکرٹری دفاع ، داخلہ، چیف کمشنر اور پولیس افسران پر جرمانوں کے خلاف اپیلوں پر سماعت چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔ایڈشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کوُ لاپتہ افران سے متعلق بتایا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق تاحال پیش رفت نہیں ،لاپتہ شہریوں کی عدم بازیابی پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نےایڈیشنل اٹارنی جنرل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکئی کئی سال گزر گئے ہیں ، کہاں ہیں لاپتہ افراد ،پہلے کئی بار اٹارنی جنرل پیش ہو چکے ، خالد جاوید خان بھی پیش ہو چکے ،وفاقی حکومت اور افسران کی انٹراکورٹ اپیلیں خارج ہیں، رٹ پٹیشنز کی سنگل بینچ میں سماعت ہوگی۔
اس دوران وفاقی حکومت نے اسلام آباد سے ایک ماہ کا مزید وقت لینے کی استدعا کی جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کئی سالوں سے انٹرا کورٹ اپیلیں چل رہی ہیں مہربانی کر کے آپ نے ہمارے ساتھ جو کیا وہ سپریم کورٹ کے ساتھ کے ججز کے ساتھ کریں۔
عدالت نے شہریوں کی عدم بازیابی پر سیکرٹری دفاع داخلہ ،چیف کمشنر اور پولیس افسران پر جرمانوں کے خلاف اپیلیں خارج کر دیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ رٹ پٹیشن کی سماعت سنگل بینچ میں ہو گی۔
فیصلے کے بعد عدالت نے لاپتہ ساجد محمود کی اہلیہ کی درخواست پر جسٹس اطہر من اللہ کا 2018 کا فیصلہ برقرار رکھا ہے، 2018 کے سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ضمیر الحسن شاہ کیا ایک لاکھ جرمانہ بحال کیا گیا جبکہ 2018 کے چیف کمشنر ذوالفقار حیدر کو کیا گیا ایک لاکھ جرمانہ بحال کیا گیا ہے، 2018 کے آئی جی اسلام آباد خالد خان خٹک کو بھی ایک لاکھ روپے جرمانہ بحال کیا گیا۔ 2018 کے ڈپٹی کمشنر مشتاق احمد کو کیا ایک لاکھ روپے جرمانہ بحال کیا گیا ہےایس ایچ او پولیس قیصر نیاز کو کیا گیا تین لاکھ روپے کا جرمانہ بھی بحال کیا گیا۔