ٹاپ سٹوریز

مودی نے بالآخر مغل بادشاہوں کو شکست دے دی

Published

on

نو سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی قوم پرست حکومت نے صدیوں پہلے رخصت ہو جانے والے مغل بادشاہوں اور مسلم حکمرانوں کو بھی شکست دے دی۔

یہ دلچسپ تبصرہ  دہلی یونیورسٹی  میں ہندی کے استاد اپوروانند نے بھارت کی  نصابی کتابوں سے مغل اور دیگر مسلم سلاطین کو نکالے جانے پر ایک مضمون میں کیا۔اپورا وانند کا کہنا ہے کہ مسلم بادشاہ سات عشروں سے  نصابی کتابوں میں وسیع رقبہ پر قابض تھے اور مودی نے انہیں نکال باہر کیا ہے۔

دہلی یونیورسٹی کے استاد اپوراوانند نے لکھا کہ  بھارت میں حال ہی میں  مختلف درجات کی  نصابی کتابوں  سے مغل بادشاہوں اور دہلی سلطنت کے متعلق ابواب خارج کئے گئے ہیں ۔مغل اس طرح غائب تو نہیں کئے جا سکتے لیکن اب بھارتی طالب علموں کو مغل بادشاہوں کے کارناموں اور ہندوستانی سماج پر ان کے اثرات کے متعلق نہیں پڑھایا جائے گا۔مغلوں کی بنائی عمارتیں اور سماجی اثرات کو بھارتی زمین اور سماج سے نکالنا شاید کبھی ممکن نہ ہو۔

یہ حیران کن  ہوگا کہ بھارتی طالب علم آج کے بھارت کو مغلوں کے کردار اور ان کی خدمات کے بغیر کیسے جان سکیں گے۔ جیسے آگرہ کا تاج محل۔

نصابی کتب سے مغلوں اور مسلم سلاطین کو نکالا جانا حیرت کا باعث ہرگز نہیں کیو نکہ یہ سب مودی کے نظریاتی ایجنڈا کا حصہ ہے اور بی جے پی چاہتی ہے کہ ہندوستان کو تاریخی طور پر ہندو ملک ظاہر کرے ، کسی اور بالخصوص مسلمانوں کی ہندوستان کی تاریخ میں موجودگی کو دراندازی بلکہ آلودگی تصور کیا جا رہا ہے۔

اپوروانند  طنزیہ لکھتے ہیں کہ سکول کی نصابی کتابوں نے مسلمانوں کو قومی یادداشت کا نہ بھولنے والا حصہ بنا رکھا تھا  اب اسے حذف کیا جانا ضروری تھا۔  یہ نکتہ نظر مسلم سمجھے جانے والے شہروں کے نام تبدیلی کرنے سے مطابقت رکھتا ہے، تاریخی شہر الہ آباد اب پرگیاراج ہے، اورنگ آباد اب چھترا پتی سمبھاجی نگر کہلاتا ہے اور عثمان آباد اب دھراشیو ہے۔1992 میں ایودھیا  کی بابری مسجد کا انہدام اسی ثقافتی تطہیر کا حصہ تھا۔ اگلی باری وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی مسجدکی ہے۔

اپوروانند لکھتے ہیں کہ نصابی کتابوں میں مغلوں اور مسلمانوں سے ہونے والا سلوک اس بات کا آئینہ دار ہے کہ مودی کے بھارت میں مسلمانوں کو حقیقی زندگی میں کیسے حالات کا سامنا ہے۔نصابی کتب میں حالیہ تبدیلیاں سماجی قتل  عام کا حصہ ہیں ۔نصابی کتابوں سے صرف مسلمانوں کو نہیں ، ذات پات کے نظام، اچھوتوں کو بھی نکالا جا رہا ہے تاکہ آنے والی نسلیں اس بات پر یقین رکھیں  کہ ہندوستان تنازعات سے پاک ملک تھا۔

بی جے پی کو تاریخ کبھی بھی زیادہ اچھی نہیں  لگتی کیونکہ اسی تاریخ میں ایک نام ہے نتھو رام گوڈسے کا، جس نے  1948 میں گاندھی جی کو قتل کیا تھا  ۔ نتھو رام گوڈسے  ایک انتہا پسند تھا اور  راشٹریہ  سوایم سیوک سنگھ کا  رکن بھی،  اور  راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ بی جی پی کے نظریات کا منبع ہے، اسی لیے نتھو رام گوڈسے کے آر ایس ایس کے ساتھ کسی بھی ربط کی تفصیلات بھی نصابی کتب سے نکال دی گئی ہیں اور اب نتھو رام گوڈسے تاریخ میں اکیلے بھیڑیئے   کی طرح ہے۔

گجرات میں 2002 میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام کے ابواب بھی نصاب سے خارج کر دیئے گئے ہیں، اس قتل عام کے وقت مودی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ اسی طرح نصاب سے صنفی امتیاز کی تمام مثالیں بھی حذف کر دی گئی ہیں جیسے کہ ہندوستان تو ہمیشہ سے صنفی امتیاز سے پاک خطہ تھا۔

اپوراوانند لکھتے ہیں کہ بی جے پی چاہتی ہے کہ دنیا یہ مانے کہ ہندوستانی معاشرہ ہندو ہے اور ہندو سماج ہمیشہ سے انصاف پسند، محبت کرنے والا اور بالکل غیر امتیازی رہا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ سوچ ماضی کو کنٹرول کرنے یا اسے ہندو رنگ میں رنگنے تک محدود نہیں، یہ مستقبل کے بارے میں بھی ہے، ایک تاریک، غیر جمہوری مستقبل، جس میں بی  جے پی ہندوستان کو دھکیل رہی ہے۔

اپوروانند لکھتے ہیں کہ ایک مضبوط ریاست اور فرمانبردار عوام ایک ایسے ہندوستان کے خیال میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں جسے مودی کی بی جے پی تعمیر کرنا چاہتی ہے۔اس سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے، نصابی کتب سے جمہوری حقوق کے دفاع کے لیے سماجی اور سیاسی احتجاجی تحریکوں کے حوالے نکال دیے گئے ہیں۔شہریوں کو ریاست کو جوابدہ بنانے کے بجائے، بی جے پی چاہتی ہے کہ لوگ ریاست کے سامنے جوابدہ ہوں۔

اپوروانند کا کہنا ہے کہ ایک سیکولر ملک سے ہندو ہندوستان بنانے کے لیے، بی جے پی کو فرضی سرزمین کی جعلی تاریخ بنانے کی ضرورت ہے۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version