ٹاپ سٹوریز
مون سون بارشیں، لاہور میں خستہ حال عمارتوں کا سروے نہ ریکارڈ،ہر سال چھتیں، دیواریں گرنے سے ہلاکتیں معمول
مون سون کا سیزن عروج پر ہے، ہر سال یہ سیزن اپنے ساتھ بڑے شہروں میں اربن فلڈز کا خطرہ لاتا ہے اور خستہ حال عمارتوں کے مکینوں کے لیے موت اوت تباہی کا پیغام بھی۔
بڑے شہروں میں ضلعی انتظامیہ خستہ حال عمارتوں کی ریکارڈ رکھنے اور ان عمارتوں کو خالی کرانے کی ذمہ دار ہیں۔ صوبائی دارالحکومت لاہور پنجاب کا سب سے بڑا شہر ہے اور یہاں بھی ہر سال خستہ حال عمارتیں خالی کرانے کا نوٹس معمول کی بات ہے لیکن اس بار یہ معمول برقرار نہ رہا، کوئی ایک بھی نوٹس جاری نہ ہوا۔
اردو کرانیکل نے پتہ لگانے کی کوشش کی کہ لاہور میں خستہ حال عمارتیں موجود نہیں رہیں یا انتظامیہ معمول کی کارروائی بھول گئی؟ شہر میں خستہ حال عمارتوں کی تعداد کیا ہے؟ ان عمارتوں کی بحالی کے لیے کیا ضابطے ہیں اور ادارے کیا کر رہے ہیں؟۔
انتظامی حوالے سے لاہور تین حصوں میں تقسیم ہے، سب سے بڑا حصہ ڈپٹی کمشنر لاہور کے زیرنگرانی ہے جسے ضلعی انتظامیہ کہا جاتا ہے،
دوسرا بڑا حصہ فوج کے زیرانتظام ہے جس کا انتظام و انصرام کنٹونمنٹ بورڈز کے ذمہ ہے۔
اصل اور پرانا لاہور والڈ سٹی اتھارٹی کی نگرانی میں دیا جا چکا ہے۔
مخدوش عمارتوں کے لیے کبھی سروے ہی نہیں ہوا
ڈپٹی کمشنر یا ضلعی انتظامیہ کی نگرانی میں جو علاقہ آتا ہے وہ شاہدرہ سے کاہنہ اور واہگہ سے سندر تک پھیلا ہوا ہے، اس وسیع علاقے کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے ،اور لاکھوں رہائشی مکانات کے ساتھ کمرشل عمارتیں بھی شامل ہیں، لاہور کی ضلعی انتظامیہ کے ساتھ ایل ڈی اے بھی رہائشی و کمرشل علاقوں میں تعمیرات کی نگرانی میں مددگار ہے۔
خستہ حال عمارتوں کے ریکارڈ اور اعداد و شمار کے حوالے سے ڈپٹی کمشنر دفتر سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا اس قسم کا ریکارڈ سرے سے مرتب ہی نہیں کیا گیا، پی آر او سٹیٹ حافظ سفیان نے کوئی واضح جواب دینے سے گریز کیا اورکہا کہ جلد ریکارڈ فراہم کر دیا جائے گا۔
لاہور کے مختلف ٹاؤنز میں ایسے کسی ریکارڈ کی تلاش کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اندازے کی بنیاد پر عمارتوں کا ایک تخمینہ اور چند ایک فہرستیں موجود ہیں۔
ٹاؤنز سے ملنے والی معلومات کے مطابق سمن آباد ٹائون میں20 کے قریب عمارتیں ایسی ہیں جو ناقابل استعمال یا مخدوش ہیں مگر ان عمارتوں میں لوگ رہائش پزیر ہیں۔
راوی ٹاؤن کے علاقہ میں شاہدرہ کے قرب و جواراورکریم پارک کے قریب 30 سے زائد عمارتوں کی نشاندہی موجود ہے مگر ان کے خلاف بھی کاروائی سے گریز کیا جا رہا ہے۔
نشتر ٹاؤن، واہگہ ٹاؤن ،کینٹ اقبال ٹائون، داتا گنج بخش ٹاؤن سمیت تمام ٹائونز میں ایسی مخدوش عمارتوں کی نشاندہی موجود ہے جن کی کل تعداد 380 کے قریب بنتی ہے،مگر ان کے خلاف کاروائی میں قانونی رکاوٹیں ہیں، اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے ان عمارتوں کے مکینوں کو سرکاری طر پر متبادل رہائش دینے کا کوئی راستہ موجود نہیں۔
ضلعی انتظامیہ اور ٹاؤنز کے سرکاری ذرائع بتاتے ہیں کہ مخدوش عمارتوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہو سکتی ہے لیکن درست اعداد وشمار کے لیے سروے ہونا لازمی ہے۔
اندرون شہر42 عمارتوں کی نشاندہی کی گئی جو مخدوش ہیں، تاہم انہیں خالی کروانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
والڈ سٹی اتھارٹی کے پاس بھی ریکارڈ نہیں
والڈ سٹی اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر رضوان کے مطابق اتھارٹی کے2012 میں قیام سے اب تک اندرون شہر میں کل 22 ہزار جائیدادوں کا ریکارڈ موجود ہے، جن میں سے 6 ہزار سے زائد عمارتیں کمرشل ہیں۔
والڈ سٹی کے مکینوں کا کہنا ہے کہ 42 کا ہندسہ ایک ڈھکوسلا ہے، اس سے کہیں زیادہ عمارتیں ایسی ہیں جن کے کسی بھی وقت گرنے کا خدشہ ہے مگر والڈ سٹی اتھارٹی کی جانب سے ان کے خلاف اب تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ ایسی عمارتوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔
پرانے شہر کے مکینوں کے اس دعوے پر وال سٹی اتھارٹی کا کہنا تھا کہ ہم بلا جواز کسی بھی مکان کو خستہ حال قرار نہیں دے سکتے، اس کے لئے ایک میکنزم موجود ہے، ایک کمیٹی کو پہلے پٹواری یا کوئی بھی شخص اطلاع کرتا ہے کہ فلاں عمارت خستہ حال اور رہائش کے قابل نہیں، کمیٹی ٹینکنیکل سٹاف کو وہاں بھیجتی ہے ، جو اس عمارت سے نمونے لے کر عمارت کی پختگی یا خستگی کا جائزہ لیتے ہیں پھر کمیٹی فیصلہ دیتی ہے کہ اس عمارت کے مکینوں کو نوٹس دئیے جائیں یا نہیں۔
والڈ سٹی اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر رضوان سے دریافت کیا گیا کہ پرانے مکانات اور عمارتوں کو اگر گرانے کی اجازت نہیں تو ان کو محفوظ بنانے کے لیے کیا کیا جا رہا ہے؟ اس پر وال سٹی اتھارٹی کا موقف ہے کہ پہلے پہل حکومت نے پنجاب مرمت کے لیے فنڈز دئیے، یہ فنڈز پہلے سال ہی دیئے گئے تھے، ان فنڈز سے 200 مکانات کی مرمت و بحالی کا کام کیا گیا، اس سے شہریوں کو فائدہ ہوا اور لاہور کے ورثے کو بچانے میں مدد ملی۔
والڈ سٹی میں پلازوں کی تعمیر سے خطرات
وال سٹی اتھارٹی کی جانب سے اندرون شہر میں موجود بازار جن میں گمٹی بازار ،کشمیری بازار،موچی دروازہ بازار،لوہاری گیت،اکبری منڈی، کیسریا،موتی مارکیٹ ،اعظم کلاتھ مارکیٹ ،وان بازار ،صرافہ مارکیت ،بھاٹی گیٹ ،چوٹا مفتی ، شاہ عالم مارکیٹ کو محفوظ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
پرانے شہر کے مکین یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ عام شہری کو گھر کی تعمیر نو کی اجازت نہیں لیکن بلڈر مافیا کئی کئی مکانات گرا کر پلازے کھڑے کر رہا ہے اور انہیں کوئی روکنے والا نہیں، اس حوالے سے مکینوں کے الزام میں صداقت نظر آئی کیونکہ اندرون شہر خاص طور پر شاہ عالم مارکیٹ ،اعظم کلاتھ مارکیٹ ،موتی بازار،گمٹی بازار سمیت دیگر مقامات پر 270 سے زائد پلازے بن چکے ہیں جبکہ 81 زیر تعمیر ہیں، مگر وال سٹی اتھارٹی کی انتظامیہ اور پٹواریوں نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں، پٹواریوں کا کہنا ہے کہ ہم تاجروں سے ٹکر نہیں لے سکتے یہ لوگ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
والڈ سٹی اتھارٹی کے عملے کو درپیش خطرات کی تصدیق اس بات سے ہوتی ہے کہ والڈ سٹی اتھارٹی کا آفس اندرون شہر سے لارنس روڈ پر منتقل کر دیا گیا ہے،
والڈ سٹی اتھارٹی کے اسسٹنٹ دائریکٹر رضوان نے بتایا کہ زندگی سب کو عزیز ہے اور اندرون شہر میں قانون پر عملدرآمد کیے لئے جب انتظامیہ نے کارروائی کی تو اندرون شہر میں لوگوں کی بڑی تعداد نے گھیر لیا اور جان سے مارنے کی کوشش کی جس کے بعد انتظامیہ نے ہیڈ آفس لارنس روڈ پر شفٹ کر لیا اور سائیٹ آفس اندرون شہر میں ہی رکھا۔ اب وال سٹی کے دفاتر کو شاہی قلعہ میں شفٹ کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔
والڈ سٹی اتھارٹی پرانے لاہور کے محفوظ بنانے پر کام کر رہی ہے لیکن اس کی کارکردگی کو مثالی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس حوالے سے ایل ڈی اے انجنئیرنگ ونگ کےذمہ داروں کا کہنا ہے کہ حکومت پنجاب نے شہر میں تہہ خانے بنانے پر پر پابندی عائد کر رکھی ہے مگر سارے لاہور میں تہہ خانوں کی بھرمار ہے کوئی بڑی عمارت یا پلازہ ایسا نہیں جس میں تہہ خانہ نہ بنایا گیا ہو۔ تہہ خانوں کی کھدائی سے لاہور بھر میں عمارتوں کی بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں، والڈ سٹی میں بڑے بڑے پلازوں میں تہہ خانے بنا لیے گئے ہیں اور مزید کھدائی کا عمل جاری ہے کیا ایسے میں لاہور کی پرانی اور تاریخی عمارتیں کھوکھلی نہیں ہوئی ہوں گی؟ اس سوال پر والڈ سٹی حکم کیوں خاموش ہیں؟