Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

پاکستان

نئی سیاسی جماعت یا ‘ کمپنی بہادر’ سے بغاوت

Published

on

چند ماہ پہلے ملک میں دو سیاسی جماعتوں استحکام پارٹی اور تحریک انصاف پارلیمنٹرین کا ظہور ہوا ہے، ابھی ان دو نوزائیدہ جماعتوں کی تنظیم سازی کا عمل بھی مکمل نہیں ہوا اور ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

نئی سیاسی جماعت کیلئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر اور مفتاح اسماعیل کام کر رہے ہیں اور یہ اطلاعات آئی ہیں کہ نئی سیاسی جماعت میں سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان اور سابق فوجی صدر کے بیٹے اعجاز الحق کی  شمولیت کا امکان ہے۔

اس سے پہلے وجود میں آنے والی دونوں سیاسی جماعتیں یا تو تحریک انصاف کے ناراض رہنماؤں پر مشتمل ہیں یا پھر نو مئی کے واقعات کے بعد تحریک انصاف سے علیحدگی کرنے والے لوگ ان کا رخ کر رہے ہیں۔ جبکہ نئی  ممکنہ جماعت میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے علاوہ دیگرجماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنما شامل ہوسکتے ہیں۔

ملک میں اس وقت بھی 169  کے قریب سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہے لیکن ان میں بہت سی جماعتوں کے نام سے بھی لوگ واقفِ نہیں۔ بمشکل درجن بھر جماعتیں ہی پارلیمان میں پہنچتی ہیں یا الیکشن کا حصہ بنتی ہیں۔ ایسے میں کیا کسی نئی جماعت کی ضرورت ہے یا یہ محض الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔

ماضی میں کئی سیاسی جماعتیں بنیں لیکن وقت ساتھ ساتھ ختم ہوگئیں اور ان کا کوئی نام لیوا بھی نہیں رہا۔ سب سے زیادہ حصے مسلم لیگ کے ہوئے اور کئی لاحقوں کے ساتھ مسلم لیگ مختلف ادوار میں نظر آئی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ دھڑے تانگہ جماعت بنتے طلے گئے۔ اس کے بعد  جب پیپلز پارٹی زیر عتاب آئی تو اس کی تقسیم شروع ہوگئی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس سے الگ ہونے والے دھڑے بھی ماضی کا حصہ بنتی چلے گئے۔ اب پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے علاوہ ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے مرتضی بھٹو کی پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی باقی ہے۔ جہاں تک پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کا تعلق ہے تو یہ ایک ہی سکے دو رخ ہیں تاہم پیپلز پارٹی دو ہزاردو سے عام انتخابات پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے نام سے لڑ رہی ہے۔

قیام پاکستان  سے اب تک نئی جماعتوں کے قیام کا سلسلہ جاری ہے اور نئی جماعتیں بنانے پر قانونی طور پر کوئی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے سیاست دانوں کے علاوہ سابق فوجیوں نے نہ صرف سیاسی جماعتیں بنائیں بلکہ وہ کئی سیاسی جماعتوں کا حصہ بھی رہے۔ ملک بننے کے بعد  ایک یہ رائے بھی  سامنے آئی کہ مسلم لیگ کو تحلیل کر دیا جائے کیونکہ یہ تحریک کا نام تھی اور نئی سیاسی جماعت بنائی جائے لیکن اس رائے کو کسی طور پذیرائی نہیں ملی، مسلم لیگ کے نام سے تو کئی سیاسی جماعتیں بنیں لیکن ملک کی خالق جماعت  مسلم لیگ انہیں میں کہیں کھو گئی۔

ملک میں کنگز پارٹیاں بھی وجود میں آئیں۔ ان سب میں پہلا نام رپبلکن پارٹی کا ہے لیکن یہ بھی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے اور شاید ہی کسی کو یاد ہو کہ اس نام سے بھی کوئی سیاسی جماعت کبھی تھی۔ کنگ پارٹی کا 1956 سے شروع ہونے والا سلسلے وقت کیساتھ ساتھ چلتا رہا۔

جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد اپنی جماعت بنائی اور اس کا نام بھی ملک کی خالق جماعت مسلم لیگ پر رکھا لیکن ساتھ میں ایک کنونشن کا لاحقہ استعمال کیا۔ ذوالفقار بھٹو بھی اس سیاسی جماعت کے سیکرٹری جنرل رہے۔

جنرل ضیا الحق  نے مسلم لیگ فنکشنل کے بطن سے مسلم لیگ بنائی اور فنکشنل لیگ سے تعلق رکھنے والے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا لیکن یہ بھی محمد خان جونیجو کے انتقال کے بعد مخلتف حصوں میں بٹ گئی۔  اسی مسلم لیگ سے نون ، جیم، جناح وجود میں آئیں. 2002 میں جنرل پرویز مشرف  کے دور اقتدار میں مسلم لیگ قاف بنی۔ مسلم لیگ قاف میں پیپلز پارٹی پیٹریاٹ اور سابق صدر مملکت سردار فاروق خان لغاری کی ملت پارٹی بھی ضم ہوگئیں۔ 1996 میں قائم ہونے والی تحریک انصاف کو 2013 میں پذیرائی۔

سابق آرمی چیف صاحبان میں سے جنرل اسلم بیگ پہلے مسلم لیگ جونیجو میں شامل ہوئے اور پھر اپنی جماعت عوامی قیادت پارٹی بنائی۔ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے جماعت تشکیل دی۔ سابق آرمی چیف جنرل ٹکا خان نے خود کوئی جماعت تو نہیں بنائی البتہ پیپلز پارٹی کا حصہ رہے اور اسی جماعت کے سیکرٹری جنرل رہے۔ سابق آرمی جنرل ضیا الحق کے بیٹے نے اپنے والد کے نام سے مسلم لیگ ضیاء قائم کی۔ اسکے علاوہ بہت سے اعلیٰ فوجی افسر مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ رہے۔

عسکری شخصیات کی طرح اعلیٰ عدلیہ سے تعلق رکھنے والے ججز بھی سیاسی جماعتوں میں شامل رہے لیکن سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری نے جسٹس اینڈ ڈیموکریٹ پارٹی کے نام سے ایک جماعت کی بنیاد رکھی۔ مسلم لیگ نون نے سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس رفیق تارڑ کو پہلے سینیٹر بنایا اور وہ اسی جماعت سے صدر مملکت بنے۔ مسلم لیگ نون نے سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس سعید الزمان صدیقی کو صدر مملکت کے عہدے کیلئے نامزد کیا لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔

اس وقت جب نئی سیاسی جماعت کی بنیاد ڈالنے کی باتیں کی جا رہی ہیں تو سب سے بڑا اعتراض یہ سامنے آ رہا ہے کہ نئی سیاسی جماعت کی ضرورت کیوں؟ پاکستان میں پہلے ہی ضرورت سے زیادہ سیاسی جماعتیں ہیں پھر نئی سیاسی جماعت کیوں؟

ملک میں ہمیشہ سے جمہوریت اُس طرح فعال نہیں رہی جیسے ہونا چاہیے اور اس کا نقصان سیاسی جماعتوں کو بھی ہوا۔ ان میں موروثیت کا عنصر غالب آگیا اور پارٹی کیساتھ وابستہ افراد کی گنجائش کم سے کم ہوگئی۔

اس ماحول میں بہت سارے سیاسی رہنماؤں نے اسی میں اپنی عافیت سمجھی کہ اپنی سیاسی جماعت سے طویل رفاقت کو کیسے چھوڑیں اور  جماعت کے اندر صرف ” یس مین” بن کر رہ گئے۔  اس وقت سیاسی جماعتوں میں جمہوری سوچ برائے نام ہی ہے۔ ایسی صورت حال میں نئی سیاسی جماعت کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

جس وقت پیپلز پارٹی تخلیق کی گئی اس وقت بھی یہ نکتہ چینی کی گئی کہ اس جماعت کی کیا ضرورت ہے اورغیر معروف لوگ کیسے کامیاب ہونگے؟ لیکن نتائج نے سب کی آرا کو یکسر مسترد کر دیا۔ آج بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ آخر شاہد خاقان عباسی اور دیگر کو نئی سیاسی جماعت بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس کی بنیادی وجہ جماعت کے اندر اختلاف رکھنے والوں کے لیے گنجائش نہ ہونا ہے۔ بہت سے سیاسی لوگ اختلاف کرنے کی پاداش میں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہیں۔

ٹو پارٹی سسٹم کی دلیل کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعت میں جمہوریت ہونی چاہے اور سیاسی جماعت  کسی شخصیت کے بجائے سیاسی نظریہ اور جمہوری سوچ کے تابع ہو۔ جہاں کوئی بھی اپنی قابلیت کی بنیاد پر کسی بھی پارٹی عہدے پر فائز ہو سکے چاہے وہ عہدہ جماعت کے سربراہ کا ہی عہدہ کیوں نہ ہو۔ ملک میں زیادہ جماعتیں صرف اور صرف موروثیت کی بنیاد پر چل رہی ہیں یعنی سیاسی جماعت کے نام پر بادشاہت کا تصور زور پکڑ رہا ہے۔ بد قسمتی سے سیاسی جماعتوں کی باگ دوڑ اُسی وقت خاندان سے باہر گئی جب سیاسی جماعت کے سربراہ یا اُن کے خاندان کے کسی رکن کیلئے جماعت چلانا ممکن نہیں رہا۔ جاوید ہاشمی اور امین فہیم کی اس کی منہ بولتی مثالیں ہیں۔

کسی سیاسی جماعت کے بارے بہترین فیصلہ شہری اپنے ووٹ کے ذریعے کرتے ہیں اور صرف عوامی پذیرائی کی بنیاد پر ہی کسی سیاسی جماعت کا وجود قائم رہ سکتا ورنہ کئی اعلیٰ عہدوں پر رہنے والوں نے سیاسی جماعتیں بنائیں لیکن وہ صرف اور صرف نام کی سیاسی جماعتیں ہیں۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ سیاسی جماعت کی تشکیل اور اس کی پذیرائی آسان کام نہیں ہے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت سیاسی جماعت کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی وقت جتنی  ضرورت جمہوریت کی ملک کو ہے اس سے کہیں زیادہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعت اپنے نظریہ اور عوامی پذیرائی کی بل بوتے پر قائم رہتی ہیں ورنہ ایک کمپنی بن رہ رہ جاتی ہے۔ شاید نئی جماعت بنانے کے لیے کوشاں سیاستدان ‘ کمپنی بہادر’ سے بغاوت کی کوشش میں ہیں۔

Continue Reading
Click to comment

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین