ٹاپ سٹوریز
ن لیگ سے تعلق رکھنے والے 2 وفاقی وزرا، وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو ہٹانے کی درخواست پر نوٹس جاری
الیکشن کمیشن نے نگران حکومت میں وفاقی وزراء،وزیراعظم کے سیکرٹری اور مشیر کو ہٹانے کی درخواست قابل سماعت قرار دے دی۔الیکشن کمیشن نے درخواست پر 10 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
الیکشن کمیشن میں درخواست ایڈوکیٹ عزیز الدین کاکاخیل کی جانب سے دائر کی گئی تھی، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نگران وفاقی وزیر فواد حسن فواد،مشیر احد چیمہ کو ہٹایا جائے۔نگران وزیر اعظم کےسیکرٹری توقیرشاہ سابق وزیر اعظم کے سیکرٹری رہے،آرٹیکل 218 کے مطابق نگران اپ غیر جانبدار ہو۔
الیکشن کمیشن نے نگران وزرا،مشیر اور سیکرٹری کو نوٹس جاری کردئیے،کیس کی سماعت 26 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔
الیکشن کمیشن نے درخواست پر 10 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
فواد حسن فواد کون ہیں؟
فواد حسن فواد گریڈ 22 سے ریٹائرڈ ہونے والے بیوروکریٹ ہیں۔ وہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں کم و بیش چار سال تک اور بعد میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے تقریباً ایک سالہ دور میں پرنسپل سیکریٹری کے عہدہ پر فائز رہے۔
اس سے قبل 2013 کے اوائل تک وہ وزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف کے دور میں صوبے کے مختلف محکموں کے سیکریٹری کے طور پر بھی فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ان کی شہرت انتظامی صلاحیتوں کے مالک بیوروکریٹ کی رہی۔
نواز شریف دور میں وہ طاقتور ترین بیوروکریٹ سمجھے جاتے تھے یہاں تک کہ ن لیگ کے وزرا اور ارکان بھی ان سے تنگ تھے اور انہیں نواز شریف اور اپنے درمیان ایک دیوار تصور کرتے تھے۔
سنہ 2018 میں قائم ہونے والی نگراں حکومت نے انہیں سول سروس اکیڈمی لاہور کا ڈی جی مقرر کیا۔
نیب نے لاہور میں آشیانہ ہاؤسنگ سکیم سکینڈل کی تفتیش شروع کی تو فواد حسن فواد پر یہ الزام لگایا کہ شہباز شریف کے ساتھ ملک کر انہوں نے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تحت اس منصوبے کا ٹھیکہ منظورشدہ فرم کو دینے کے بجائے دوسری فرم کو دلوانے کی کوشش کی تھی۔
فواد حسن فواد 89 دن تک ریمانڈ پر نیب کی حراست میں رہے۔ اس کے بعد انہیں کیمپ جیل لاہور میں بھیج دیا گیا۔16 ماہ کے بعد 20 جنوری 2020 کو لاہور ہائی کورٹ سے ان کی ضمانت منظور ہوئی تو اس سے دس دن قبل 10 جنوری 2020 کو وہ 60 سال کی عمر پوری ہونے پر سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہو چکے تھے۔
جنوری 2023 نے انہیں ناجائز اثاثہ جات بنانے کے جرم سے باعزت بری کر دیا گیا۔
توقیر شاہ کون ہیں؟
توقیر شاہ کا شہباز شریف سے تعلق بہت پرانا ہے۔ اور وہ اسی حوالے سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔
توقیر شاہ ویسے تو پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز کے افسر ہیں لیکن وہ سب سے پہلے اس وقت منظر عام پر آئے جب پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف نے انہیں اپنا پرنسپل سیکرٹری مقرر کیا۔
2014 میں جب ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کے گھر کے باہر سے رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے پولیس اور ان کے کارکنوں کے درمیان تصادم میں درجن سے زائد افراد کی ہلاکتیں ہوئیں تو اس واقعے کی جوڈیشل انکوائری بھی ہوئی۔
عوامی تحریک نے الزام عائد کیا کہ پولیس کی جانب سے کارکنوں پر فائرنگ کروانے میں توقیر شاہ نے احکامات دیے۔ بعد میں ہائی کورٹ انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں بھی ان کا نام درج تھا البتہ ان کے خلاف مزید کارروائی نہیں کی گئی۔
اس واقعے کے بعد انہیں وزیراعلی کے پرنسپل سیکرٹری کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ڈاکٹر توقیر شاہ کا نام ایک بار پھر خبروں میں اس وقت آیا جب ان کی تعیناتی ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے جینیوا ہیڈکوارٹر میں پاکستان کے سفیر کے طور پر ہوئی۔ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ازد خود نوٹس لیتے ہوئے اس تعیناتی کو ختم کر دیا تھا۔
توقیر شاہ کو گزشتہ 10 برسوں کے دوران موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے قریب ترین ہونے کی وجہ سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ مارچ 2020 میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے انہیں جب وفاقی سیکرٹری برائے صحت لگایا تو ڈاکٹر طاہر القادری نے ان کے خلاف ٹویٹ کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کو اس تعیناتی پر مبارکباد دی۔ اس احتجاج کی وجہ سے ڈاکٹر توقیر شاہ کو ایک ہی ہفتے بعد اوایس ڈی بنا دیا گیا تھا۔
احد چیمہ کون ہیں؟
احد چیمہ کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے اور وہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز کے گریڈ 20 کے افسر ہیں۔ وہ ایسے پہلے 20 گریڈ کے افسر ہیں جن کی تین سال کی سروس جیل میں گزری ہے۔
ان کا تعلق ڈی ایم جی گروپ سے ہے۔ سب سے پہلے پنجاب کی افسر شاہی میں ان کا نام اس وقت سامنے آیا جب 2005 میں چوہدری پرویز الہٰی کے دور حکومت میں انہیں ’پڑھا لکھا پنجاب‘ نامی مہم کا کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا۔
پنجاب میں ورلڈ بینک کے تعاون سے زیادہ سے زیادہ بچوں کو سکول میں داخل کروانے کی یہ ایک کامیاب مہم سمجھی جاتی ہے۔
بعد ازاں 2008 میں جب شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے پنجاب کی بیوروکریسی کے افسران کے خود انٹریو کیے اور اپنی ٹیم بنائی۔
احد چیمہ بھی ان کی ٹیم کے سرکردہ رکن تھے۔ شہباز شریف کے دونوں ادوار اقتدار میں وہ اہم عہدوں پر فائز رہے۔
ان کو دو مرتبہ لاہور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا ڈی جی لگایا گیا۔ جب 2011 میں پاکستان کی پہلی میٹرو بس سروس بنانے کا آغاز ہوا تو اس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر بھی احد چیمہ ہی تھے۔
خیال رہے کہ یہ پراجیکٹ 11 ماہ میں مکمل ہوا تھا۔ اس کے بعد انہیں پنجاب حکومت کے بجلی کے منصوبوں کی کمپنی قائد اعظم تھرمل پاور کا سی ای او بنایا گیا اور گذشتہ دور حکومت میں لگنے والے تیز ترین بجلی کے منصوبوں کی نگرانی وہی کر رہے تھے۔
ان منصوبوں کو چین نے سرکاری طور پر پنجاب سپیڈ کا نام دیا تھا کیونکہ یہ تمام منصوبے سی پیک کے تحت چینی سرمایہ کاری سے بنائے گئے تھے۔
شہباز شریف کے دوسرے دور حکومت کے اختتام پر فروری 2018 میں ان کو ان کے سرکاری دفتر سے نیب نے گرفتار کر لیا اور ان پر دو مقدمات چلائے گئے، ایک مقدمہ آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی جبکہ دوسرا آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ہے۔
ان کی عدالت پیشی کے موقع پر بڑی تعداد میں سرکاری افسران ان سے اظہار یکجہتی کے لئے اکھٹے ہوتے رہے۔