پاکستان

ایک کے بعد ایک آئینی بحران، قاضی فائز عیسیٰ کا امتحان

Published

on

قومی اسمبلی تحلیل ہوگئی اور نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا، یوں انتخابات سے پہلے کے مراحل مکمل ہو گئے۔ اب عام انتخابات کیلئے الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے، نگران حکومت پر آئینی قدغن ہے کہ 90  دنوں میں عام انتخابات کرانے۔

آئینی پابندی کے باوجود سبکدوش ہونے والے اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے دعویٰ کیا ہے کہ انتخابات آئندہ برس موسم بہار میں ہوں گے، راجہ ریاض کے پاس اس پیشگوئی کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی اور ان کی یہ بات کسی نہ کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل نے عام انتخابات 2023 کی مردم شماری کی بنیاد پر کرانی کی حمایت کر دی ہے اور نئی حلقہ بندیوں میں کم از کم چھ ماہ لگ سکتے ہیں  اس طرح انتخابات اپنی آئینی مدت میں نہ ہونے کے اندیشے بڑھ گئے ہیں۔

عام انتخابات وقت پر نہ ہونے سے کئی آئینی پیچیدگیاں پیدا ہونے کے خدشات ہیں۔ سب سے پہلے تو صدارتی انتخابات کا معاملہ ہے کیونکہ صدر مملکت عارف علوی کے منصب کی مدت آئندہ ماہ  9 ستمبر کو ختم ہو رہی ہے۔ صدرمملکت کا الیکٹورل کالج اسمبلیاں ہیں اور جب تک ان کی تشکیل مکمل نہیں ہوتی اُس وقت تک نئے صدر مملکت کا چناؤ ممکن نہیں۔ اگرچہ آئین کے آرٹیکل 44 کے تحت صدر مملکت  اپنے جانشین کے انتخاب تک اپنے منصب تک قائم رہ سکتے ہیں لیکن یہ عرصہ کتنی دیر تک کا ہوسکتا ہے اس بارے میں آئین خاموش ہے. یہ اپنی نوعیت کی بالکل نئی صورت حال ہوگی۔ ماضی میں صدرمملکت کے مستعفی ہونے پر چیئرمین سینٹ کے قائم مقام صدر مملکت مقرر ہونے کی نظیر تو موجود ہیں لیکن صدر مملکت کے مستعفی نہ ہونے بلکہ عہدے کی معیاد مکمل ہونے پر صدارتی انتخاب کا عمل التوا کا شکار ہو جائے یہ ماضی سے بالکل مختلف صورت حال ہوگی۔

قوجی صدر جنرل ضیاء الحق کی فضائی حادثے میں ہلاکت پر اُس وقت چیئرمین سینیٹ غلام اسحاق خان صدر بنے تھے. غلام اسحاق خان کے استعفی دینے اور فاروق لغاری کے مستعفی ہونے پر وسیم سجاد قائم مقام صدر کی ذمہ داریاں سنبھالتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے صدارات سے الگ ہونے پر چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو کو عارضی بنیادوں پر صدر مملکت بنایا گیا تھا۔

 سینٹ کے انتخابات بھی آئندہ برس مارچ میں ہونے ہیں۔ چھ سال کیلئے منتخب ہونے والے 48 سینیٹر اپنے عہدے کی میعاد مکمل ہونے پر ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔ ویسے تو نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بھی انہیں 48 ارکان سینیٹ میں شامل تھے لیکن انہوں  نے نئی ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے ہی سینیٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر کی صورت حال میں سینیٹرز تو ریٹائرڈ ہو جائیں اورنئے سینیٹرز کا انتخاب نہ ہوسکے۔

سیاسی جماعت ہو یا پھر انتخابی سیاست کرنے والے سیاست دان، دونوں ہی انتخابی عمل سے دور نہیں رہ سکتے۔ سیاسی جماعتوں کیلئے انتخاب میں تاخیر پر سمجھوتہ کرنا اس قدر آسان نہیں ہوگا البتہ یہ سوال اہنی جگہ قائم ہے کہ وہ کیا طریقہ کار یوگا جس سے انتخابات میں تاخیر نہ ہوسکے۔ تاخیر کی صورت میں سیاسی جماعتوں کیلئے آسان نہیں ہوگا کہ وہ انتخابات کو وقت پر کرانے کیلئے دباؤ ڈال سکیں۔

 اگرچہ نگران وزیر اعظم کیلئے نامزدگی کا عمل اتفاق رائے سے طے پایا ہے لیکن اس کے باوجود یہ نام خود سابق حکمران جماعت میں شامل اتحادی جماعتوں کیلئے کسی بڑے سرپرائر سے کم نہیں تھا۔

نگران وزیر اعظم کیلئے انوار الحق کاکڑ کی نامزدگی غیر معمولی اور غیر متوقع تھی۔ کسی کو گمان تک نہیں تھا کہ ڈارک ہارس سینیٹر انوار الحق کاکڑ کی نگران وزیر اعظم کیلئے نامزدگی ہوگی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈراک ہارس کی نامزدگی کے معاملے پر سیاسی حلقے اندھیرے میں رہے۔ اب یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اس نامزدگی کے عمل میں سابق وزیر اعظم نے کس کس کو اعتماد میں لیا ہے؟

سابق حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں نے نگران وزیر اعظم  کی نامزدگی پر اپنے اپنے تحفظات ہونے کے باوجود اسے قبول کرلیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہی ہے کہ اس کو قبول کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں، چاہے اتحادی جماعتیں  کتنے مرضی نام تجویز کر دیتیں لیکن وہ براہ راست مشاورتی عمل میں حصہ دار نہیں تھے یا اُنکے ہاتھ کچھ نہیں تھا۔

ابھی نگران وفاقی حکومت کی کابینہ کے ارکان کا اعلان ہونا ہے جس سے مزید صورت حال واضح ہوگی۔ ان امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا  کہ کابینہ غیر معمولی اور کٹھن فیصلے کرے گی۔

نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں سے اسمبلیاں کی نشستوں میں کمی یا اضافہ ہوگا۔ اس کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی اور اس وقت اسمبلیوں کا وجود نہیں ہے۔ ان آئینی باریکیوں سے کیسے نمٹا جائے اور قومی اسمبلی کے بغیر اس کا کیا حل تجویز کیا جائے گا. اس کا فوری جواب نہیں کسی کے پاس نہیں۔

 قانونی ماہرین اور سیاسی پنڈت اس بات تو متفق ہے کہ آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ انتخابات کو  90 دنوں سے زیادہ دن تک مؤخر کیا جائے یا پھر اس میں تاخیر ہو۔ قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 دنوں  میں انتخابات  نومبر تک ہونے لازمی ہیں۔

آئندہ ماہ ستمبر میں ایک اور اہم منصب خالی ہو رہا ہے اور چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی جگہ جسٹس فائزعیسی نئے چیف جسٹس سپریم کورٹ ہونگے۔ اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ وہ انتخابات میں تاخیر  پر کیا کرتے ہیں؟ جسٹس فائز عیسیٰ آئین پر عمل درآمد کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ دیکھنا ہے وہ 90 دنوں میں انتخابات کرانے کی آئینی پابندی پر عمل درآمد کیلئے کیا احکامات دیتے ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن کیلئے بھی نوے دن میں انتخابات نہ کرنے کا معقول جواز دینا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version