پاکستان
ترش پھلوں کی بیماریوں سے نمٹنے کے لئے زرعی ٹیکنالوجی میں پاک چین تعاون
پنجاب میں ترش پھلوں کے کچھ باغات میں حشرات اور پیتھوجینک فنگل ایجنٹوں پر قابو پانے کے لئے حشرات کو پھنسانے والے زرد بورڈز، ایل ای ڈی ٹریپنگ لائٹس اور حیاتیات کنٹرول پر مبنی مصنوعات کا استعمال کیا جارہا ہے۔
ترش پھلوں کی بیماریوں اور حشرات پر قابو پانے کے لئے ساؤتھ چائنہ ایگرکلچرل یونیورسٹی اور جامعہ سرگودھا نے دو ہزار اٹھارہ میں چین پاکستان مشترکہ تحقیقی مرکز قائم کیا تھا۔
مرکز کے قیام کا مقصد حشرات پر قابو پانے کے سبز، مؤثر اور پائیدار طریقوں تیار کرنا ہے ۔ جس میں سٹرس سائلڈ اور سٹرس گریننگ بیماری پر خصوصی توجہ دی گئی۔ حشرات کو پھنسانے اور حیاتیاتی کنٹرول کے طریقوں کا استعمال کرنے کے لئے ایک نمائشی مرکز بھی قائم کیا گیا ۔
تحقیقی مرکز کے ڈپٹی ڈائریکٹر شوکت علی نے بتایا کہ اس تحقیق کو پنجاب کے دو شہروں میں آزمایا گیا ہے اور اس نے سٹرس سائلڈ کو قابول کرنے میں اچھے نتائج دیئے۔
سٹرس سائلڈ پر گرین پیسٹ کنٹرول نظام قائم ہونے سے پاکستان میں اعلی معیار کے ترش پھلوں کی پیداوار کو بڑھانے میں مدد ملنے کی توقع ہے۔
ترش پھل پاکستان کی ایک اہم برآمدی فصل ہے جس میں کینو کی برآمد نمایاں ہے۔
تاہم، سٹرس گریننگ کی بیماری نے صنعت کو خطرے سے دوچار کردیا ہے جس سے کاشت شدہ رقبے اور پیداوار دونوں میں کمی واقع ہورہی ہے۔
مرکز کے ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر چھیوباؤلی نے بتایا کہ یہ بیماری بنیادی طور پر سٹرس سائلیڈ سے پھیلتی ہے، چینی ٹیم کو سٹرس سائلڈز کے قدرتی دشمنوں کی افزائش نسل اور پنیری کے حشرات کش علاج میں تکنیکی فوائد حاصل ہیں۔ پاکستان کو بڑے پیمانے پر افزائش نسل اور ترش پھلوں پرحملہ آور حشرات کے قدرتی دشمنوں کے فوائد حاصل ہیں یہ تحقیقی مرکز دونوں ممالک کے فوائد کو یکجا کرتا ہے۔
اس تحقیق کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں جن میں سٹرس سائلیڈ انفیکشن کی پیش گوئی اور اس پر قابو پانےاور قدرتی شکاریوں کی بڑے پیمانے پر افزائش نسل شامل ہے۔
سائنسی تحقیق کے دوران تحقیقی مرکز کی ٹیم نے پاکستان میں بھونروں کی مجموعی طور پر 134 اقسام کی نشاندہی کی اور علاقے میں 22 نئی اقسام دریافت کیں۔
اس کی بنیاد پر ٹیم نے چھ دھبے والے بھونروں اور ریڈ اسٹار بھونروں کے درمیان ایک ریلیز ڈیوائس تیار کی جو سٹرس سائلڈز کے فائدہ مند شکاری ہیں۔
انہوں نے ان کی بڑے پیمانے پر افزائش نسل کے لئے گروپ ٹیکنیکل معیارات بھی وضع کئے۔ سبز کیڑوں پر قابو پانے کی ٹیکنالوجی اور چین و پاکستان میں سٹرس سائلڈز کے لئے مصنوعات اختراعی تحقیق اور ترقی میں مدد کی۔
یہ منصوبہ زرعی تحقیق میں بین الاقوامی تعاون کی ایک مثال ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح شراکت داری عالمی غذائی تحفظ کو متاثر کرنے والے اہم مسائل کے جدید حل کا باعث بن سکتی ہے۔
جامعہ سرگودھا میں انٹومولوجی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر محمد عرفان نے بتایا کہ ترش پھلوں کے حشرات پر حیاتیاتی طریقے سے قابو پاکر، حشرات کش ادویات کے استعمال کو مؤثر طریقے سے کم کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ اب بھی پاکستان کے بہت سے حصوں میں ایک نیا تصور ہے۔ تحقیقی مرکز نے اس ضمن میں نتیجہ خیز نتائج حاصل کئے ہیں اور مجھے امید ہے کہ چینی اور پاکستانی محققین مستقبل میں بھی دونوں ممالک کے کاشتکاروں کو مزید فائدہ پہنچانے میں تعاون مضبوط کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
جامعہ سرگودھا میں زرعی کالج کے سابق ڈین محمد افضل نے کہا کہ تحقیقی مرکز نے دونوں ممالک کے سائنسدانوں کے درمیان تبادلوں کو فروغ دیا ہے، ہم مستقبل میں مزید تبادلوں اور تعاون کو فروغ دیں گے۔ ہم دونوں ممالک میں زراعت کی بہتری کے لئے سائنسی تحقیق کے نتائج سے تبدیلی اور اطلاق کو تیز کریں گے