کالم

پیپلز پارٹی مضبوط اپوزیشن کر پائے گی؟

Published

on

عام خیال تھا کہ نگران حکومت کی تشکیل کے بعد ملک کے سیاسی الجھیں سلجھ جائیں گی لیکن  اس کے برعکس  اوپر تلے ایسے مسائل نے سر اٹھایا ہے جس سے سیاسی بکھیڑوں میں اضافہ ہوا ہے، جہاں ادارے کے ایک دوسرے کے مدمقابل نظر آ رہے وہیں رفیق بھی رقیب بن رہے ہیں۔

ابھی صدر مملکت عارف علوی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹویٹر) پرآرمی ایکٹ اور سیکریٹ ایکٹ  میں ترمیم کے بلوں پر دستخط نہ کرنے کے انکشاف سے پیدا ہونے والا سیاسی شور تھم نہیں پایا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر نے صدر مملکت سے انتخابات کی تاریخ کے تعین پرملاقات سے معذرت کرلی ، ساتھ ہی سابق حکمران اتحاد میں شامل پیپلز پارٹی نے پرانے اتحادیوں کے موقف کے برعکس 90 دنوں میں انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے۔

صدر مملکت عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر کو چٹھی لکھی کہ عام انتخابات کی تاریخ کیلئے ملاقات کی جائے لیکن الیکشن کمیشن نے اس سے معذوری ظاہر کی اور باور کرایا کہ قانون میں ترمیم کے بعد انتخابات کی تاریخ مقرر کرنا اُن کا حق ہے اور صدر مملکت کا اس سے کوئی سروکار نہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے اس موقف میں قانونی طور پر درست ہوسکتے کہ قانون میں ترمیم سے انہیں یہ اختیار مل گیا ہے لیکن ان کا انداز کسی بھی طور درست نہیں۔

چیف الیکشن کمشنر کو جواب دیتے ہوئے یہ بات ذہین میں رکھنی چاہئے تھی کہ وہ صدر مملکت سے ہم کلام ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کا جواب کسی طور بھی صدر مملکت کے شایان نہیں۔ چیف الیکشن کمشنر یہ ہی بات صدرممکت سے ملاقات کرکے بھی کہہ سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ قانونی ماہرین کے مطابق الیکشن ایکٹ میں ردبدل کے باوجود کوئی بھی قانون آئین کے تابع ہے۔ آئین میں صدر کے اپنے اختیارات  ہیں۔ 90 دنوں انتخابات کرانا ایک آئینی ذمہ داری ہے اور الیکشن کمشنر اس قانون کو ڈھال بنا کرکے من مانی نہیں کرسکتے، وہ آئین ذمہ داریاں پوری نہ کرنے پر جوابدہ ہیں۔

تحریک انصاف نے 90 دنوں میں انتخابات کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان بیرسٹر علی ظفر کے توسط سے دائر درخواست میں استدعا کی کہ صدر مملکت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں اور الیکشن کمیشن شیڈول کا اعلان کرے۔ اب یہ تنازع بھی اعلیٰ عدلیہ کے پاس چلا گیا ہے۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پہلے ہی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر انتخابات بروقت نہ کرانے پر آئینی درخواست دائر کر چکی ہے۔

اُدھر پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ نوے دنوں میں انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے اور اگر ایسا نہ ہوا تو اس سے بحرانی کیفیت جنم لے گی۔ پیپلز پارٹی کے اس موقف نے سب کو حیران کر دیا ہے، ایک طرف تو پیپلز پارٹی نے مشترکہ مفادات کونسل میں مردم شماری کی توثیق کی اور اب نوے دنوں میں انتخابات کا مطالبہ بھی کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی سابق حکمران اتحادی جماعتوں میں سے  مسلم لیگ ن نے الیکشن کمیشن کے انتخابات میں تاخیر پراس کیساتھ کھڑی ہے اور جے یو آئی فضل الرحمان بھی پیپلز پارٹی کے بجائے مسلم لیگ نون کے ساتھ ہیں۔ آصف علی زرداری سے فضل الرحمان کی گہری دوستی ہے لیکن اس کے باوجود اب ان کے راستے جدا لگ رہے ہیں۔

 الیکشن کمیشن پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ مردم شماری کی روشنی میں حلقہ بندیوں کا عمل 14 دسمبر  تک مکمل ہوگا اور یہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ حلقہ بندیوں کو 90 دن سے زیادہ وقت لگے گا اور اسی وجہ سے انتخابات آئندہ برس ہونے کا امکان ہے۔

یہاں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ جب مشترکہ مفادات کونسل میں مردم شماری کی توثیق کی جا رہی تھی تو کیا اُس وقت پیپلز پارٹی اپنے توثیق کے فیصلے کے اثرات سے بے خبر تھی؟ اور یہ بات بھول گئی کہ حلقوں بندیوں کی وجہ سے  انتخابات بروقت نہیں ہوپائیں گے۔

کیا پیپلز پارٹی نے  مردم شماری کی توثیق عجلت میں کی اور وہ اپنے فیصلے کے نتائج سے واقف نہیں تھی۔ اس سوال کا جواب پیپلز پارٹی کے علاوہ کوئی اور نہیں دے سکتا۔ پیپلز پارٹی کے نوے دن میں انتخابات کا مطالبہ کرنے سے زیادہ اہم اس بات کا اعلان ہے کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنیاد پر مردم شماری کی توثیق  کی گئی۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں جب سابق چیئرمین سینیٹ نیئر بخاری نے یہ سوال کیا گیا کہ نوے دنوں میں انتخابات کرانے کے معاملے میں آپ کے ساتھ کون کھڑا ہے تو ان کا جواب تھا کہ وہ آئین کیساتھ ہیں اور آئین ان ان کیساتھ ہے۔ نینر بخاری کا جواب یہ ظاہر کرتا ہے کہ یا تو وہ اپنی حکمت عملی ظاہر نہیں کرنا چاہتے یا پھر ابھی انہوں نے کوئی پیش بندی ترتیب ہی نہیں دی۔ پیپلز پارٹی کو آنے والے دنوں میں انتخابات بر وقت نہ ہونے پر موجود آپشنز پر بات کرنی پڑے گی۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی بھی بروقت یعنی 90 دنوں میں انتخابات کیلئے سپریم کورٹ کا ہی دروازہ کھٹکھائے گی۔

سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی گردش کر رہی ہے کہ زمان پارک میں تحریک انصاف کے سربراہ کے پڑوسی بیرسٹر اعتزاز احسن تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان دوری ختم کرکے اسے قربت میں تبدیل کرسکتے ہیں لیکن یہ سوال اہنی جگہ قائم ہے کہ جس طرح پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ قاف اور مسلم لیگ ن کو قبول کیا ہے کیا تحریک انصاف بھی اسی طرح پیپلز پارٹی کو قبول کرے گی؟

پیپلز پارٹی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حکومت اچھی کرے نہ کرے لیکن اپوزیشن میں رہ کر اپنا  کردار ادا کرنا خوب جانتی ہے لیکن اب یہ بھی دیکھنا ہے ایک مضبوط اپوزیشن یعنی تحریک انصاف کے ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی کتنا فعال کردار ادا کرسکتی ہے. ماضی میں یہ سب نے دیکھا کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن متحدہ مجلس عمل یعنی ایم ایم اے کو ہی سمجھ گیا لیکن اسے عوامی سطح پر پریذائی نہیں ملی تھی کیونکہ ووٹ بینک کسی دوسری جماعت کے پاس تھا۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version