تازہ ترین

پالیسی پرانی، چہرے تبدیل

Published

on

پارلیمانی نظام کی ایک کے علاوہ تمام اکائیاں مکمل ہوگئیں ہیں۔ اب پارلیمان کے ایم جزو سینیٹ کے انتخابات ہونا باقی ہیں۔ وفاقی حکومت کی تشکیل بھی مکمل ہوگئی ہے جبکہ آصف علی زرداری بھی دوسری مرتبہ صدر بن گئے ہیں۔

آصف علی زرداری ملکی تاریخ میں پہلے سویلین ہیں جو دوسری مرتبہ ایوان صدر کے مکین بنے ہیں۔ آصف علی زرداری اس مرتبہ ایسے وقت میں صدر مملکت کا حلف اٹھایا ہے جب صدر کا منصب پُروقار تو ضرور ہے، بااختیار نہیں ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے پاس 2008 والے اختیارات نہیں ہیں جس کے ذریعے وہ صدر مملکت ہوتے ہوئے  اتحادی حکومت کیلئے کسی قسم کی پریشانی کا سبب بن سکیں۔

18 ویں ترمیم کے بعد صدر مملکت کا عہدہ ایک نمائشی نوعیت کے عہدے میں تبدیل ہوگیا ہے۔ آصف علی زرداری کے جانشین ممنون حسین اور آصف علی زرداری کے پیش روعارف علوی کی مثال سب کے سامنے ہے۔عارف علوی صدر ہوتے ہوئے کچھ نہیں کرسکے جس سے ان کی زیر عتاب  سابق جماعت کی کوئی مدد ہوسکے۔ ماضی میں فضل الہی چودھری اور رفیق تارڑ کا دور بھی سب کے سامنے ہیں۔

صدر زرداری اب زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے ہیں کہ وہ  اپنی جماعت کو حکومت کی حمایت کرنے سے روک دیں۔ اس سے ان کی صدارت اور سندھ حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ دوسری طرف سابق صدر عارف علوی کے تازہ ترین بیان کے بعد یہ لگتا ہے کہ وہ اب اپنی جماعت کیلئے کوئی فعال کردار ادا کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ موجودہ اور سابق صدور آنے والے دنوں میں کیا کرتے ہیں اس بارے میں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔

شہباز شریف کی 19 ارکان پر مشتمل کابینہ نے حلف اٹھالیا۔ نئی وفاقی کابینہ پی ڈی ایم اور نگراں حکومتوں کا تسلسل ہی ہے۔ اس مرتبہ وزارت خزانہ نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار کی جگہ بینکر اورنگزیب فاروق رمدے کو مل گئی ہے۔  وزارت خزانہ کسی بینکر کو دینے کا یہ پہلا تجربہ نہیں ہے۔ ماضی میں شوکت عزیز، عبدالحفیظ اور شوکت ترین وہ بینکر تھے جو وزیر خزانہ رہے. اس مرتبہ وفاقی کابینہ کے اس اہم ترین رکن پر تمام تر نظریں ہیں کہ وہ اپنی کارکردگی سے کس طرح  ملک کو بھنور سے باہر نکالتے ہیں۔

سابق وفاقی وزیر خزانہ اور نواز شریف کی بیٹی کے سسر اسحاق ڈار کو وزارت خارجہ دی گئی ہے، اس پر حیرانی ضرور ہونی چاہیے کیونکہ اسحاق ڈار کو اس کا کوئی خاص تجربہ نہیں ہے۔ اسحاق ڈار کیساتھ بالکل وہی کیا گیا ہے جیسا 1997 میں ہوا۔ نواز شریف دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے وزارت خارجہ کا قلمدان جنرل ایوب خان کے بیٹے اورسابق سپیکر قومی اسمبلی گوہر ایوب خان کو دیا لیکن جب ان سے اختلافات ہوئے تو نواز شریف  نے ان کو وزارت خارجہ سے ہٹا دیا اور ان کی جگہ وزارت خارجہ  معروف اقتصادی ماہر سرتاج عزیز کو دے دی۔ اب معیشت کے جادوگر اسحاق ڈار کو وزارت خارجہ مل گئی ہے۔

پہلی مرتبہ کسی نگران وزیر اعلیٰ کو وفاقی کابینہ میں اہم ذمہ داری ملی ہے۔سب کا ایک ہی سوال ہے محسن نقوی  پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون میں سے کس کے کہنے پر کابینہ کا حصہ بنے ہیں۔ محسن نقوی سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین کے بیٹے اور کابینہ کے رکن چودھری سالک کے ہم زلف بھی ہیں، اورنگ زیب رمدے کی طرح محسن نقوی نے پارلیمان کا رکن منتخب ہوئے بغیر وفاقی کابینہ میں اپنی جگہ بنائی۔ اس مرتبہ کابینہ میں تین ایسے ارکان ہیں جو پارلیمان کے کسی ایوان کے رکن نہیں ہیں۔ محسن نقوی اس وقت پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ ہونے کیساتھ وزیر داخلہ بھی ہیں۔ یہ سب کسی “خاص” کی خوشنودی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

19 ارکان پر مشتمل وفاقی کابینہ میں صرف ایک خاتون اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوسکیں۔ وہ وزیر دفاع خواجہ آصف کی بھتیجی شیزہ فاطمہ ہیں۔  خواتین کو وفاقی حکومت میں نمائندگی نہ دینا حکومتی کی خواتین کے بارے غیر سنجیدہ رویہ کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس اعتراض کو ہوا دیتا ہے کہ مسلم لیگ نون کے پاس ایسی خواتین کی کمی ہے جن کو وفاقی کابینہ میں شامل کیا جاسکے۔ خود وزیر اعظم شہباز شریف کی بھتیجی آبادی کے اعتبار سے سب بڑے صوبے کی وزیر اعلیٰ ہیں بلکہ پنجاب کابینہ کی سینیئر وزیر کے علاوہ صوبائی وزیر اطلاعات بھی خواتین ہیں۔ شہباز شریف کی کابینہ پر” پرانی شراب نئی بوتلوں میں”  انگریزی کا محاورہ صادق آتا ہے۔

تحریک انصاف کے دھاندلی کیخلاف احتجاج پر جس طرح کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے اس تو یہ ہی ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی کچھ تبدیل نہیں ہوا بلکہ صرف چہرے تبدیل ہوئے ہیں اور پالیسی پہلے والی چل رہی ہے۔ شہباز شریف نے وزیر اعظم کی حیثیت سے ایسا کچھ نہیں کہا جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ اب تحریک انصاف کیخلاف پالیسی تبدیل ہوگی۔ مسلم لیگ نون کے رہنما آج بھی  تحریک انصاف پر وہی تنقید کر رہے جیسے نو مئی کے بعد کی جا رہی تھی۔ مسلم لیگ نون نےاُسی روش کو برقرار رکھا ہے جو نگران نے اختیار کی تھی۔

تحریک انصاف کیساتھ نگراں حکومت والی پالیسی کیساتھ حکومت کیلئے آگے بڑھنا آسان نہیں ہوگا۔ اس پالیسی سے سڑکوں پر احتجاج تو محدود کیا جاسکتا ہے لیکن پارلیمان اور پنجاب اسمبلی کے اندر احتجاج میں شدت آئے گی جو حکومت کیلئے کسی طور بھی کوئی اچھا شگون نہیں ہوگا۔

2002 کی پارلیمان زیادہ دور کی بات نہیں ہے.  جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے اپوزیشن جماعتوں کی حیثیت سے سڑک سے زیادہ پارلیمان کے اندرفعال کردار ادا کیا تھا۔ اب حکومت کو سنجیدگی سے سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کیلئے کوئی اقدامات کرنے ہونگے جس سے اپوزیشن کیساتھ ساتھ حکومت بھی فائدہ ہو۔

صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزرا نے اپنی تنخواہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے. یہ فیصلہ اخلاقی طور پر اچھا ہے لیکن عملی طور پر اس کے ملکی معیشت پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہونگے۔ تنخواہ نہ لینے کا اعلان اقتصادی صورت حال میں ایسا ہی ہے  جیسا اونٹ کے منہ میں زیرہ ہو۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version