کالم
الیکشن کے بعد خیبر پختونخوا کا سیاسی نقشہ
کامل دس سالوں تک دائیں بازو کی ملک گیر جماعت پی ٹی آئی کے تصرف میں رہنے کے باعث خیبرپختونخوا کی سیاسی حرکیات بدل گئیں اور پشتون قوم پرستی کا وہ مرکز گریز بیانیہ کافی حد تک معدوم ہو چکا،جس کی قوم پرست جماعتوں کے علاوہ مذہبی و سیاسی جماعتوں کو بھی چار و ناچار جگالی کرنا پڑتی تھی لیکن بدقسمتی سے رواں الیکشن میں پھر حالات کا جبر اُسی پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے والا ہے جس نے مغربی سرحدات سے منسلک حساس خطہ کو لسانی اور نسلی تعصبات کی علمبردار اُن علاقائی پارٹیوں کے تسلط سے نجات دلائی، جو پچھتر سالوں سے پڑوسی ملک افغانستان کی ایما پہ علیحدگی کی تحریکیں برپا رکھے ہوئے تھیں۔
تاہم پی ٹی آئی کی طرف سے صوبہ کی عوام کو ورثہ میں ملنے والی معاشی بدحالی اور امن و امان کی مخدوش صورت حال میں یہاں کے عوام 8 فروری کو قومی اسمبلی کی45 اور صوبائی اسمبلی کی115 نشستوں کے لئے نمائندوں کا انتخاب کرنے جا رہے ہیں۔لاریب، تاریخ کا اہم ترین اصول یہی ہے کہ جو چیز ابھرتی ہے وہ گرتی ضرور ہے اور بسا اوقات تقدیر ظاہری طور پہ غیرمربوط واقعات کی مدد سے کرداروں کو آگے بڑھا کر انکی مرضی کے بغیر انہیں اَن دیکھی تباہی میں دوچار کر دیتی ہے۔
گویا 2018 کی مانند اب صوبائی سطح پہ رواں الیکشن کے بعد بھی ہمیں کئی حیران کن مناظر دیکھنے کو ملیں گے۔ تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ نادیدہ قوتوں کے تمام تر دباؤ کے باوجود پی ٹی آئی وسطی اور شمالی پختونخوا سے لگ بھگ 40 نشستیں جیت لے گی اور حالات کی یہی الٹ پھیر 30 سے زیادہ آزاد امیدوارں کی اسمبلی تک پہنچنے کی راہ بھی ہموار بنا رہی ہے، تاہم ،انتہائی نامطلوب اور تھکا دینے والی کشمکش کے نتیجہ میں بلے کا نشان چھن جانے کے باعث پی ٹی آئی کے تمام امیدوار بھی آزاد بن کر 8 فروری کے الیکشن کا انعقاد یقینی بنا گئے۔
اس میں کوئی شبہ باقی نہیں رہا اگر پی ٹی آئی بلے کے نشان کے ساتھ انتخابی اکھاڑے میں موجود رہتی توعام انتخابات کا انعقاد دشوار ہو جانا تھا، گویا پی ٹی آئی کی تحلیل کے بعد اب 8 فروری کو الیکشن کا انعقاد یقینی ہونے کے علاوہ خیبر پختونخوا میں ایسی وسیع البنیاد حکومت بنانے کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانا قدرے آسان ہو گیا،جو امن عامہ کی بگڑتی صورت حال اور اقتصادی چیلنجز سے اچھی طرح نمٹ سکے ۔
علیٰ ہذالقیاس، تحریک انصاف کے منحرفین پہ مشتمل پی ٹی آئی پارلیمنٹرین نے39 حلقوں میں امیدوار کھڑے کئے لیکن انہیں سات یا اٹھ نشستوں سے زیادہ کی توقع نہیں ہے،پی ٹی آئی پارلمنٹیرین پشاور سے تو ایک نشست نہیں جیت پائے گا البتہ پرویز خٹک نوشہرہ سے اپنی اور بیٹے ابراہیم کی صوبائی نشست نکال لیں گے، پی ٹی آئی پارلمنٹیرین کے کوہاٹ سے ضیا الرحمن اور ہزارہ سے سیداحمد شاہ بھی اپنی نشستیں جیت سکتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ تحریک انصاف وہ واحد جماعت ہے جس نے پورے صوبہ کی115 نشستوں پہ امیدوار کھڑے کئے اور تمام تر مشکلات کے باوجود پی ٹی آئی پشاور کی 13میں سے6 نشستیں جیت سکتی ہے، مردان سے فضل شکور،ظاہر شاہ اور عبدالسلام ، نوشہرہ سے ادریس اور خلیق الزمان کی نشستوں کے علاوہ چارسدہ اور شبقدر سے بھی پی ٹی آئی دو نشستیں جیت لے گی،اسی طرح صوابی ،سوات،دیراپر،لوئر اور مالاکنڈ سے تحریک انصاف دس بارہ اور ہزارہ ڈویژن سے چار پانچ نشستیں جیتنے کے علاوہ بونیر سے فخرزمان والی سیٹ لیکر صوبہ کی سب سے بڑی پارٹی بنکر ابھرتی تو ملکی سطح کے پورے انتخابی عمل کو دگرگوں کر سکتی تھی لیکن باغیانہ مسرت سے سرشار ہونے کے باوجود اب پی ٹی آئی والے بھی دیگر آزاد امیدواروں کی طرح، نہ ہاتھ باگ پہ ہے نہ پا ہے رکاب میں، کے مصداق ہوا کے دوش پہ ہوں گے۔
شومئی قسمت کہ تاریخی شعور سے عاری عمران نیازی اور اس کے رفقا نے عین اس وقت اپنی پیٹھ پہ سیاسی جدلیات کے زخم کھائے جب وہ جمہوریت کو ایک ہاتھ سے پرے دھکیلنے اور ناآموختہ عمل سمجھ کے دوسرے ہاتھ سے سینے سے لگانے کو بیتاب تھے،اب انہیں محسوس ہو گا کہ تاریخ اسی طرح تقدیر کی جبریت کو بے نقاب کرتی ہے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے بعد جے یو آئی پشاورمیں مولانا امان اللہ اور عبدالحسیب حقانی والی 2 صوبائی نشستیں جیتنے کے علاوہ بونیر، کوہستان، ہزارہ اور چترال سے کم و بیش 8 نشستیں جیت لے گی،اگرچہ اس وقت لکی مروت میں جمعیت کی پوزیشن کمزور ہے تاہم ڈیرہ اسماعیل خان،ٹانک اور بنوں میں جے یو آئی کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے،اگر کرک اور کوہاٹ سے جے یو آئی کو دو نشستیں مل گئیں تو20 سے25 نشستوں کے ساتھ جے یو آئی خیبر پختونخوا کی سب سے بڑی جماعت بنکر اتحادی گورنمنٹ بنانے کی پوزیشن میں آ جائے گی ۔
مردان کی8 ،صوابی کی5 اور چارسدہ کی 5 صوبائی نشستوں پہ بھی جے یو آئی کے علاوہ اے این پی اور نواز لیگ کے امیدوار مضبوط ہیں، خاص کر اختیار ولی خان کی پوزیشن بہتر بتائی جاتی ہے۔سوات کی 8 میں سے دو نشستیں امیر مقام جیت سکتے ہیں،ہزارہ ڈویژن سے بھی نواز لیگ کم و بیش 5 سیٹیں جیت کر خیبر پختونخوا میں اپنا 10 نشستیں جیتنے کا ہدف آسانی سے حاصل کر لے گی لیکن یہاں بھی پی ٹی آئی ان کے برابر نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہو گی۔
پیپلزپارٹی والے دیر، مالاکنڈ اور چترال سے دو تین نشستیں نکالنے کی تگ و دو میں سرگرداں ہیں۔ چترال اور کوہستان کی زیادہ تر نشستیں جے یو آئی کا مقدر بنیں گی، باجوڑ و مالاکنڈ کی 6 نشستوں پہ جماعت اسلامی پراگریس دے سکتی ہے تاہم ان حالات میں بھی سوات،دیراور شانگلہ کی 18 صوبائی نشستوں میں سے زیادہ تر پی ٹی آئی لے اُڑے گی۔
اگر توقع کے مطابق 30 کے لگ بھگ آزاد امیدوار جیت کر اسمبلی پہنچ گئے تو مولانا فضل الرحمن ، مسلم لیگ نواز کے علاوہ پی ٹی آئی پارلیمنٹرین اور آزاد امیدواروں کو ملا کر خیبر پختونخوا میں جے یو آئی کی مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ تاہم ایک طرف وزارت اعلی کے لئے پرویز خٹک اور جمعیت کے مابین کانٹے کی لڑائی لڑے جانے کا امکان ہے تو دوسری جانب عوام کسی ایسی شخصیت کو خیبر پختونخوا کا وزیراعلی دیکھنے کی خواہشمند ہوں گے جو مغربی بارڈر پہ امن عامہ کی دگرگوں صورت حال کو سنبھالنے کے علاوہ یہاں کے اقتصادی مسائل کو سلجھانے کی مہارت رکھتی ہو کیونکہ اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود تحریک انصاف کی طرف سے مروجہ سیاسی بندوبست میں ٹی ٹی پی کو گنجائش دینے کی پالیسی نے خیبرپختونخوا پولیس اور سیکیورٹی فورسسز کے لئے ناقابل عبور مشکلات کے اسباب مہیا کئے ہیں۔
حیرت انگیز طور پہ پی ٹی آئی اگرچہ کوئی مذہبی نصب العین نہیں رکھتی لیکن وہ عسکریت پسندی کے آشوب سے بچنے کی خاطر ایسا عمرانیاتی تصادم مول لینے پہ تیار ہو گئی جس کی حرارت زندہ سماجی تغیرات کوجلا کر خاک کر سکتی تھی۔دوسرے پی ٹی آئی کی ناکام معاشی پالیسیوں کے نتیجہ میں خیبر پختونخوا کی معیشت خاص کر صحت و تعلیم کے شعبوں میں پیدا ہونے والے بحران نے اس زرخیز صوبہ کو فنا و بقا کے خط امتیاز پہ لاکھڑا کیا۔حالت باایں جا رسید کہ نگراں صوبائی حکومت کو روزمرہ امور چلانے کی خاطر صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں سے پچیس فیصدی کٹوتی کرنا پڑی۔
دفاعی تجزیہ کار خیبر پختونخوا میں جے یو آئی کی متوقع حکومت بارے بھی کچھ ایسے سوچتے ہیں کہ طالبان کے نظریات سے متاثرہ لوگوں کو اقتدار کی منتقلی اس حساس صوبہ میں طالبان کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کا وسیلہ بنے گی، جس سے ڈیورنڈ لائن کے اطراف میں تناؤ بڑھاتا جائے گا۔مولانا فضل الرحمن کے حالیہ دورہ افغانستان کو سفارتی حلقوں نے اسی تناظر میں دیکھتے ہوئے نئی پیچیدگیوں کا محرک قراد دیا۔
مقتدرہ کے سامنے فی الوقت سب سے اہم سوال یہی ہے کہ شمال مغربی سرحدی صوبہ میں ایسی متوازن حکومت کیسے قائم کی جائے جو افغان طالبان کے علاوہ ٹی ٹی پی کی پیشدستی کو روکنے کی تزویراتی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے میں وفاقی اداروں کی معاونت کر سکے۔