ٹاپ سٹوریز
افغان طالبان میں اقتدار کی جنگ یا پالیسیاں تبدیل؟ نئے وزیراعظم مولوی عبدالکبیر کون ہیں؟
افغان طالبان نے مولوی عبدالکبیر کو ملک کا نیا نگران وزیراعظم نامزد کیا ہے، مولوی عبدالقادر نے 2020ء کے دوحہ معاہدے میں اہم کردار ادا کیا تھا، افغان طالبان کے نزدیک مولوی عبدالکبیر کی اہمیت کیا ہے؟ اور وہ کون ہیں؟
مولوی عبدالکبیر، نگران وزیراعظم 78 سالہ ملا محمد حسن اخوند کی جگہ لے رہے ہیں، ملا محمد حسن اخوند اگست 2021 سے وزیراعظم تھے۔
ملا محمد حسن اخوند کے بارے میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے بتایا کہ چند ہفتوں سے ان کی صحت اچھی نہیں، ان کی صحت بحالی تک مولوی عبدالکبیر کو نامزد کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ مولوی عبدالقادر کی نامزدگی معمول کے حکومتی معاملات کا حصہ ہے،ملا محمد حسن اخوند زیرعلاج ہیں اور انہیں آرام کی ضرورت ہے۔
60 سالہ مولوی عبدالکبیر 2001ء سے اقوام متحدہ کی طرف سے پابندیوں کی زد میں ہیں، وہ 1996ء سے 2001ء تک طالبان حکومت کے قائم مقام وزیراعظم رہے، 2001ء میں امریکی حملے کے نتیجے میں افغان طالبان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو مولوی عبدالقادر نے پاکستان میں پناہ لی تھی۔
مولوی عبدالکبیر پشتون برادری کے زدران قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور وزارت عظمیٰ کے لیے نامزدگی سے پہلے ملا حسن اخوند کے سیاسی نائب کی ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔
طالبان رہنماؤں نے تردید کی ہے کہ نئی نامزدگی اندرونی خلفشار کا نتیجہ ہے۔ پچھلے ماہ یہ اطلاعات آئی تھیں کہ ذبیح اللہ مجاہد سے کہا گیا ہے کہ وہ کابل اور قندھار کے لیے اپنے وقت کو تقسیم کریں، ان اطلاعات کے بعد طالبان کے اندر اختلافات اور اقتدار کی کشمکش کی قیاس آرائیوں نے جنم لیا تھا لیکن طالبان نے اس کی تردید کی تھی۔
مولوی عبدالکبیر کی وزارت عظمیٰ کے لیے نامزدگی طالبان کے امیر ہبت اللہ اخوندزادہ کے خصوصی فرمان کے تحت عمل میں آئی۔ مولوی عبدالکبیر کابل سے 162 میل دور واقع شمالی بغلان صوبے میں پیدا ہوئے لیکن ان کے اجداد کا علاقہ صوبہ پکتیا ہے۔ مولوی عبدالکبیر طالبان کی پچھلی اور موجودہ حکومتوں میں اہم عہدے پر رہے ہیں۔ وہ طالبان کے دوحہ دفتر کا بھی حصہ تھے جس نے امریکا کے ساتھ فوجی انخلا کے معاہدے پر مذاکرات کئے۔
طالبان کے پہلے دور میں مولوی عبدالکبیر لوگر اور ننگرہار صوبوں کے گورنررہے، ننگر ہار صوبہ پاکستان کے بارڈر پر ہے اور طالبان کے پہلے دور میں طالبان کی طاقت کا اہم مرکز تھا اور امریکی حملے کے بعد بھی بیس برس تک یہ صوبہ طالبان کا مضبوط گڑھ رہا۔
طالبان کے بانی امیر ملا محمد عمر نے مولوی عبدالکبیر کو ننگرہار کے گورنر کے لیے خود نامزد کیا تھا اور انہیں طالبان کی مجلس شوریٰ کا رکن بھی بنایا تھا۔ 2005 میں انہیں طالبان کے سیاسی کمیشن کا سربراہ بھی بنایا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے طالبان حکومت کا وزیراعظم ہونے کی بنیاد پر 2001 میں ان پر پابندیاں عائد کی تھیں،2005ء میں پاکستان کے اندر چھاپوں کے دوران کئی طالبان لیڈر گرفتار ہوئے، ان میں مولوی عبدالکبیر بھی شامل تھے۔
2021ء میں طالبان کی اقتدار میں واپسی ہوئی، اس کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان دوحہ میں کئی مذاکراتی راؤنڈ ہوئے، ان مذاکرات میں بھی مولوی عبدالکبیر نے اہم کردار ادا کیا۔
افغان امور کے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مولوی عبدالکبیر کی سفارتی صلاحیتیں ان کی نامزدگی کی اہم وجہ ہیں۔ مولوی عبدالکبیر کی پاکستان سے قربت اور دوحہ مذاکرات میں ان کا کردار یہ اشارہ دیتا ہے کہ طالبان پاکستان اور دیگر ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا چاہتے ہیں، تاہم اہم عہدوں میں سے صرف ایک پر تبدیلی اندرونی اور خارجہ تبدیلیوں میں بڑی تبدیلیوں کے اشارے کے لیے کافی نہیں۔
طالبان کی حکومت کو اب تک کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا، طالبان امریکا اور دیگر یورپی ملکوں سے پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں، امریکا طالبان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حکومت میں تمام گروپوں کی نمائندگی اور خواتین کے حقوق پر عمل یقینی بنائے۔ طالبان اور مغربی لیڈروں کے مذاکرات میں ان تک کوئی پیشرفت نہیں ہو پائی۔
مولوی عبدالکبیر کی نامزدگی کے بعد تبدیلیوں کی امید پر ماہرین کہتے ہیں کہ مولوی عبدالکبیر کی نامزدگی عبوری ہے اس لیے خواتین کی تعلیم سمیت کسی بھی بڑے معاملے میں پالیسی کا بدلنا ممکن نظر نہیں آتا، مولوی عبدالکبیر عبوری وزیراعظم ہونے کی حیثیت سے فیصلوں کا مکمل اختیار نہیں رکھتے۔ اسی طرح طالبان کی خارجہ پالیسی کو بدلنا بھی ان کا اختیار نہیں ہوگا۔
افغان امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اختیارات قندھار میں موجود امیر ہبت اللہ کے ہاتھ میں ہیں، کابل یہ اختیارات نہیں رکھتا۔