ٹاپ سٹوریز
نگورنو کاراباخ : صدر الہام علیوف نے اپنے والد کابدلہ لے لیا
19 ستمبر کے اوائل میں، آذربائیجان کے صدر نے ایک تیز رفتار فوجی منصوبہ بندی کی جس کی تیاری مہینوں سے کی جا رہی تھی، اس کارروائی نے جیو پولیٹیکل نقشہ ہی بدل دیا،اور تقریباً 30 سال قبل اپنے والد کو ہونے والی شکست کا بدلہ لے لیا۔
صدر الہام علیوف دو دہائیوں سے اقتدار میں ہیں اور اب انہیں ایک جنگی کامیابی بھی مل گئی ہے، صدر الہام علیوف نے اقتدار کے دوران نگورنو کاراباخ کا علاقہ واپس لینے کی بات کی جو 1990 کی دہائی کے اوائل میں نسلی آرمینیائی باشندوں نے باکو کے کنٹرول سے الگ کردیا تھا۔
برطانیہ میں آذربائیجان کے سفیر الین سلیمانوف نے رائٹرز کو بتایا کہ اب کئی ایسے عوامل تھے جنہوں نے 61 سالہ علیوف کو قائل کر لیا تھا کہ یہی صحیح وقت ہے۔
سلیمانوف نے کہا کہ تاریخ موڑ لیتی ہے اور ٹیڑھے موڑ بھی لیتی ہے۔ ہم یہ کام پہلے نہیں کر سکتے تھے اور شاید بعد آج کے بعد بھی ایسا کرنا مناسب نہ ہوتا۔خاص وجوہات کی بنا پر ستاروں نے صف بندی کی اور علیوف نے اس صف بندی کو بھانپ لیا۔
ان “ستاروں” میں نمایاں طور پر نگورنو کاراباخ کے تحفظ کے لیے روس، مغرب یا آرمینیا کی مداخلت کے لیے نئی نااہلی یا عدم رضامندی تھی۔ آذربائیجان کے مطابق نگورنو کاراباخ کی خودساختہ حکومت کے پاس 10,000 جنگجو تھے،آذربائیجان کی پاس فوج کی تعداد کا اندازہ مغربی ماہرین کے مطابق 120,000 سے زیادہ ہے۔
روئٹرز کے ساتھ بات چیت میں، دو سینئر حکام اور علیوف کے ساتھ کام کرنے والے ایک ذریعے نے اس بات پر زور دیا کہ اس الگ ہونے والے خطے کو واپس لینے کا فیصلہ مہینوں کے دوران سفارتی حقائق کے بدلنے کے بعد کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ یہ صدر کے لیے بھی انتہائی ذاتی تھا۔
فوج کے نگورنو کاراباخ کے اندر داخل ہونے کے اگلے دن آذربائیجان کے لوگوں سے بات کرتے ہوئے علیوف نے کہا کہ انہوں نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ شہریوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔
آذربائیجان نے بعد میں کہا کہ آپریشن میں اس کے 192 فوجی مارے گئے۔ کاراباخ کے 200 آرمینیائی جنگجو مارے گئے۔
ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ صدر علیئیف کچھ ایسا کر رہے ہیں جو ان کے والد نہیں کر سکے کیونکہ ان کا وقت ختم ہو گیا تھا۔
علیئیف کے اقدامات نے سٹریٹجک لحاظ سے اہم جنوبی قفقاز کے علاقے پر روس کی دہائیوں سے جاری گرفت کو ڈھیلا کر دیا ہے جو تیل اور گیس کی پائپ لائنوں سے جڑا ہوا ہے، جو بحیرہ اسود اور کیسپین سمندر کے درمیان واقع ہے، اور ایران، ترکی اور روس کی سرحدوں سے ملتا ہے۔
تین انٹرویوز میں، ایک فوجی آپریشن سے پہلے اور دو بعد میں، علیوف کے خارجہ پالیسی کے مشیر حکمت حاجیوف نے کہا کہ جمود کے باعث باکو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔
آذربائیجانی افواج کے کاراباخ میں داخل ہونے سے دو ہفتے سے پہلے، حاجیوف نے رائٹرز کو بتایا کہ باکو “اس مرحلے پر” کوئی فوجی مقاصد نہیں ڈھونڈ رہا تھا لیکن وہ چوکنا ہے انہوں نے کہا کہ آذربائیجان کاراباخ کی اپنی مسلح سیکورٹی فورسز کے ساتھ ایک “گرے زون” کو برداشت نہیں کر سکتا، اسے انہوں نے آذربائیجان کی سرزمین پر مافیا سے تشبیہ دی۔
کاراباخ فورس شکست کے بعد نئی جنگ بندی معاہدے کی شرائط کے تحت ختم ہوگئی ہے، لیکن انہوں نے ماضی میں آذربائیجان کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے خود کو ایک جائز لڑاکا فورس قرار دیا۔
فوجی آپریشن سے پہلے ایک بارودی سرنگ دھماکہ ہوا جس میں آذربائیجان کے دو شہری مارے گئے اس پر حاجیوف نے کہا، بہت ہو گیا۔
علیوف نے بارودی سرنگ کے حملے اور اسی طرح کے ایک واقعے کا بھی حوالہ دیا جس میں چار دیگر افراد ہلاک ہوئے تھے۔ کاراباخ آرمینیائیوں نے ان دعوؤں کو “مکمل جھوٹ” قرار دیا۔
اس واقعے میں روس، جس کے امن دستے وہاں موجود تھے، لیکن وہ یوکرائن میں اپنی جنگ میں مصروف ہے، ایک طرف کھڑا رہا۔
حاجیوف نے کہا کہ آذربائیجان نے آپریشن شروع ہونے سے پہلے روسیوں کو ” چند منٹ کا نوٹس” دیا۔
کاراباخ پر دو بار بڑی جنگیں لڑنے والے پڑوسی ملک آرمینیا کے وزیر اعظم نکول پشینیان نے مخالف سیاست دانوں کی طرف سے مداخلت کے مطالبات پر توجہ نہیں دی اور کہا کہ ان کے ملک کو اپنی آزادی کی خاطر “تصادم سے پاک” ہونے کی ضرورت ہے۔
مغرب – جس نے پہلے ثالثی کرنے کی کوشش کی تھی – نے صرف علیوف پر زور دیا کہ وہ اپنا آپریشن روک دیں لیکن علیوف نے ان مطالبات کو نظر انداز کر دیا۔
پشینیان نے روس کی جانب سے بحران کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کرنے پر سخت تنقید کی۔ گزشتہ ہفتے ایک کانفرنس کال پر، کریملن نے انکار کیا کہ اس کے امن دستوں کو مداخلت کرنی چاہیے تھی۔
موقع بن گیا
مہینوں سے مسئلہ چل رہا تھا۔ روس کی توجہ یوکرین کی طرف ہونے کے بعد، علیوف کو موقع کا احساس ہوا۔
گزشتہ سال دسمبر میں، آذربائیجان کے کچھ شہریوں نے خود کو ماحولیاتی ماہرینبتاتے ہوئے غیر قانونی کان کنی سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے لاچین کوریڈور کو کے راستہ بند کرنا شروع کر دیا، جو کاراباخ کو آرمینیا سے ملانے والی واحد سڑک ہے۔
کاراباخ کے حکام نے اس وقت کہا تھا کہ مظاہرینمیں آذربائیجان کے اہلکار بھی شامل تھے۔ باکو نے اس الزام کی تردید کی۔
بظاہر خطرے میں اضافے کے ڈر سے، مسلح روسی امن دستوں نے طاقت کے ذریعے مظاہرین کو ہٹانے کی کارروائی نہیں کی۔
جون میں، فائرنگ کے ایک واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے، آذربائیجان نے راہداری کو بلاک کر دیا، اور انسانی امداد کے گزرنے سمیت نقل و حمل کو روک دیا۔ اس نے صرف طبی انخلاء کی اجازت دی، ایک ایسا قدم جس نے کاراباخ میں خوراک اور ادویات کی قلت کو مزید سنگین بنادیا۔
مسلح سرحدی محافظوں نے روسی امن فوجیوں کے ایک اڈے کے قریب ایک چوکی بنائی، روس کے امن دستوں نے دوبارہ مداخلت نہیں کی۔ باکو نے ہتھیاروں کی اسمگلنگ کے خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے واشنگٹن اور ماسکو کی طرف سے سڑک کو بلاک کرنے کے مطالبات کو نظر انداز کر دیا۔
مئی میں، امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کی کوشش میں، آرمینیائی وزیر اعظم پشینیان نے پیش رفت کی پیشکش کی تھی: اگر باکو اپنی نسلی آرمینیائی آبادی کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، تو آرمینیا کاراباخ کو آذربائیجان کا حصہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ علیوف نے اس پیشکش کو کمزوری کی علامت کے طور پر دیکھا۔ علیوف کے ساتھ کام کرنے والے ذریعے نے اس تبدیلی کو “بہت اہم” قرار دیا۔
آرمینیا کی طرف سے کاراباخ کو آذربائیجان کا اٹوٹ انگ تسلیم کرنے کے بعد، 30 سالوں سے کاراباخ میں گولیاں چلانے والی مجرم حکومت کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟ علیوف نے گزشتہ ہفتے اپنی فتح کی تقریر میں کہا۔
اسی دن، روسی وزارت خارجہ نے پشینیان پر الزام لگایا کہ کاراباخ کی ہلاکت کا بیج ایک نسلی آرمینیائی انکلیو کے طور پر اس کو آذربائیجان کا حصہ تسلیم کر کے بویا گیا۔ اس نے کہا، اس نے روس کے اپنے امن دستے کے لیے “صورتحال” کو تبدیل کر دیا ہے۔
نامکمل کام
سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ہونے والے افراتفری میں کاراباخ آذربائیجان کی گرفت سے پھسل گیا۔ 1988-1994 کی جنگ میں تقریباً 30,000 لوگ مارے گئے اور 10 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوئے، جن میں سے نصف سے زیادہ آذربائیجانی تھے۔
علیوف کے والد، اس وقت کے صدر حیدر علیوف کو جنگ بندی پر رضامندی پر مجبور کیا گیا جس نے آرمینیا کی فتح کو یقینی بنایا۔
الہام، جو 2003 میں حیدر علیوف کی وفات کے بعد کے جانشین مقرر ہوئے، نے ایک سال بعد بی پی کے زیرقیادت کنسورشیم کے ساتھ تیل کے معاہدے پر دستخط کیے جس سے آذربائیجان کو ایک جدید فوج کی تعمیر شروع کرنے کے لیے فنڈز فراہم ہوئے۔
ابھی حال ہی میں، روس سے توانائی کی خریداری میں کمی کے مغرب کے فیصلے سے آذربائیجان کو مالی طور پر فائدہ ہوا۔ یورپی کمیشن نے گزشتہ سال آذربائیجان سے قدرتی گیس کی درآمدات کو 2027 تک دوگنا کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
برسوں سے، ماسکو کے آرمینیا کے ساتھ اتحاد اور دفاعی معاہدہ – جہاں اس کی فوجی سہولیات موجود ہیں – نے باکو کو طاقت کے استعمال سے روکا، روس نے دونوں اطراف کو ہتھیار بیچے۔
لیکن ماسکو کے آرمینیا کے ساتھ تعلقات 2018 میں اس وقت خراب ہونے لگے جب ایک سابق صحافی پشینیان نے سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کی قیادت کی جس نے انہیں روس نواز آرمینیائی رہنماؤں کی ایک لمبی قطار کی قیمت پر اقتدار میں لایا۔
اور جیسے جیسے آذربائیجان کی فوج کی بحالی اور جدید کاری کی مہم تیز ہوتی گئی، آرمینیا ایک کے بعد ایک بحران کا شکار ہوتا گیا۔
یہ دیکھ کر کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن اور پشینیان کے درمیان محبت باقی نہیں رہی،علیوف نے تجربہ کیا۔ 2020 میں، 44 روزہ جنگ کا آغاز کیا جسے ان کی فوج نے جیت لیا – جدید ترکش ڈرونز کی مدد سے، کاراباخ کا ایک حصہ واپس لے لیا۔
روس نے جنگ بندی کی ثالثی کی جو کہ ماسکو کے لیے ایک جیت معلوم ہوتی ہے، اور اسے کارابابخ میں تقریباً 2,000 روسی امن فوجیوں کو تعینات کرنے کی اجازت دی گئی۔اس کے بعد فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے نے ایک بار پھر حالات کو تبدیل کر دیا۔
ہوا میں دھند
منگل، 19 ستمبر کی صبح، کاراباخ کے دار الحکومت سٹیپاناکرت کے رہائشیوں نے جسے آذربائیجان میں خان کنڈی کے نام سے جانا جاتا ہے، فضا میں دھند چھائی دیکھی اور بار بار توپ خانے سے فائر کرنے کی آوازیں سنیں۔
جسے علیوف نے انسداد دہشت گردی آپریشن قرار دیا، اس کا آغاز ہو چکا تھا، جس میں ڈرونز اور توپ خانے کی مدد سے زمینی افواج کاراباخ کی دفاعی لائنوں پر حاوی ہو رہی تھیں۔
اس کے بعد ہونے والے تشدد میں کم از کم پانچ روسی مارے گئے، ایک بظاہر حادثہ جس کے لیے علیوف نے پوتن سے معافی مانگی۔
24 گھنٹوں کے اندر، باکو نے فتح کا اعلان کیا اور کاراباخ آرمینیائی جنگجو جنگ بندی پر رضامند ہو گئے، آذربائیجان نے انہیں غیر مسلح ہونے پر مجبور کر دیا۔
کاراباخ آرمینیائی باشندوں نے کہا کہ وہ ہر طرف سے دھوکہ دہی محسوس کرتے ہیں۔
کاراباخ کو اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے: روسی امن دستے عملی طور پر اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے، جمہوری مغرب نے ہم سے منہ موڑ لیا اور آرمینیا نے بھی منہ موڑ لیا، کاراباخ انتظامیہ کے رہنما کے مشیر ڈیوڈ بابیان نے شکست کے ایک دن بعد روئٹرز کو شکایت کی۔
اس کے بعد بابیان نے اپنے آپ کو آذربائیجان کے حکام کے حوالے کر دیا ہے، اس نے ٹیلی گرام پر اعلان کیا۔ جس انتظامیہ کو انہوں نے قائم کیا تھا وہ خود کو ختم کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔
علیوف نے قوم کو بتایا کہ “آذربائیجان نے کل دوپہر تقریباً 1:00 بجے اپنی خودمختاری دوبارہ حاصل کی۔”
آپریشن کے چار دن بعد، کاراباخ کے 120,000 آرمینیائی باشندوں میں سے کچھ نے کار کے ذریعے آرمینیا کی طرف بڑے پیمانے پر ہجرت شروع کر دی، یہ کہتے ہوئے کہ انہیں آذربائیجان کی طرف سے حفاظت کے وعدوں کے باوجود ظلم و ستم اور نسلی کشی کا خدشہ ہے۔ وہاں کے حکام نے بتایا کہ آذربائیجان کے حملے کے دس دن بعد، 98,000 لوگ آرمینیا فرار ہو گئے تھے۔
“یہ آرمینیائی تاریخ کے سیاہ ترین صفحات میں سے ایک ہے،” ایک 33 سالہ آرمینیائی پادری فادر ڈیوڈ نے کہا جو سرحد پر آنے والوں کو روحانی مدد فراہم کرنے آئے تھے۔ “آرمینیا کی پوری تاریخ مشکلات سے بھری پڑی ہے۔”
آذربائیجان کے لیے، کاراباخ کی واپسی ان ہزاروں آذربائیجانیوں کی واپسی کی راہ ہموار ہوئی ہے جو ایک بار وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دئیے گئے تھے، علیوف کے والد نے ان آذربائیجانی شہریوں کو واپس بسانے کا وعدہ کیا تھا۔
برطانیہ میں سفیر سلیمانوف نے کہا کہ صدر علیوف نے اپنے والد کا وعدہ پورا کردیا۔
-
کھیل11 مہینے ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین5 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان5 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم1 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز4 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین8 مہینے ago
بلا ٹرکاں والا سے امیر بالاج تک لاہور انڈر ورلڈ مافیا کی دشمنیاں جو سیکڑوں زندگیاں تباہ کرگئیں