کالم
امتِ مسلمہ پر حضور اکرمﷺکے حقوق
حضور اکرمﷺ کو اپنی امت سے جوبے پناہ محبت اور اس کی نجات و آخرت کی فکر اور ایک ایک امتی پر آپﷺ کی شفقت ورحمت کی جو کیفیت تھی اس پر قرآن کریم میں خدا وند قدوس کا یہ فرمان گواہ ہے کہ’’بے شک تمہارے پاس تشریف لائے ہیں تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں گزرتا ہےتمہاری بھلائی نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر بہت ہی نہایت ہی رحم کرنے والے ہیں‘‘(التوبہ)
ظاہر ہے کہ حضور اکرمﷺ نے اپنی امت کے لئے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر حضور اکرمﷺ کے جو حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔قاضی عیاضؒ نے اپنی کتاب شفا شریف میں حضور ﷺ کے حقوق پر مفصل بحث کی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کے حقوق بے شمار ہیں۔ان کو اگر سمویا جائے توتین قسموں میں سمویا جا سکتا ہے
پہلا حق ایمان بالرسولﷺ:
حضور اکرمﷺ کی رسالت و نبوت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ کی طرف سے لائے ہیں صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔حضورِ اکرمﷺ کے لائے ہوئے نظام دستور کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا جائے، محبت کے ساتھ اگر عقیدت نہ ہو تو ایسا فرد جہنمی ہےتاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ ابو لہب کو ساری محبت کے باوجود عقیدت نہ تھی اس وجہ سے قرآن کا فیصلہ اس کے حق میں نہ آیا۔محبت کمال کی تھی۔ابو لہب کو جب حضور اکرم ﷺکی پیدائش کی خبر ملی توآپ نے خوشی کی اطلاع کے ساتھ ہی اپنی باندی ثویبہ کو آزاد کردیا۔خدا جانے کتنی مرتبہ کندھے پر اٹھایا ہوگا ،گود میں بٹھایا ہوگا،بھتیجے کی محبت کی وجہ سے یہ ساری محبت بت کار گئی اس واسطے کہ ایمان بالرسول(عقیدت) نہ تھی تو پہلا حق ہر امتی پر یہ ہے کہ حضور اکرمﷺ سے سچی عقیدت کا اظہار کیا جائے۔
دوسرا حق اتباع سنتِ رسولﷺ:
حضورﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنتِ مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر لازم و واجب ہے رب کائنات کا فرمان ہے کہ ’’(اے رسول)فرمادیجئیے اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم کواپنا محبوب بنا لےگااور تمہارے گناہوں کو بخش دے گااور اللہ بہت زیادہ بخشنے والااور رحم فرمانے والا ہے‘‘(آل عمران) صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے سنت کی اتباع کا مکمل اہتمام فرمایا ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا گزر ایک ایسی جماعت پر ہواجِس کے سامنے کھانے کے لئیے بھنی ہوئی مسلّم بکری رکھی ہوئی تھی۔لوگوں نے آپ کو کھانےکے لئے بلایا تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کہ کرکھانے سے انکار کردیاکہ حضورﷺدنیا سے تشریف لےگئے کہ کبھی جو کی روٹی پیٹ بھر کر نہ کھائی بھلا ان لذیذ اور پر تکلف کھانوں کو کھانا کیونکر کھانا گوارا کرسکتا ہے۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مکان مسجدِ نبوی سے ملا ہوا تھااور اس مکان کا پرنالہ بارش میں آنے جانے والے نمازیوں کے اوپر گرا کرتا تھا امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پرنالہ کو اکھاڑ دیا۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ کے پا س آئے اور کہا کہ خدا کی قسم اس پرنالہ کو رسول اللہ ﷺ نے میری گردن پر سوار ہوکر اپنے مقدس ہاتھو ں سے لگوایا تھا۔یہ سن کو امیر المومنین نے فرمایاکہ اے عباس ! مجھے اس کا علم نہ تھا اب میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ میری گردن پر سوار ہوکراس پرنالہ کو پھر اسی جگہ لگا دیجئیے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا
تیسرا حق اطاعتِ رسولﷺ
ہر امتی پر رسول اللہ ﷺ کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپﷺکے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دے دیں اس کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے کیونکہ آپﷺکی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سرتسلیم خم کردینا ہر امتی پر فرض عین ہے ارشاد ہوتا ہے کہ ’’حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا‘‘(نساء)
’’جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ کا حکم مانا‘‘(نساء)
قرآن مجید کی یہ مقدس آیات اعلان کر رہی ہیں کہ اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ہر امتی کے لئے اطاعتِ رسول کی کیا شان ہونی چاہئیے اس کا جلوہ دیکھنا ہو تو اس روایت کو بغور پڑھئیے ’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے روایت کی رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے ہےآپ نے اس کے ہاتھ سے انگوٹھی نکال کر پھینک دی اور فرمایا کہ کیا تو چاہتا ہے کہ آگ کے انگارہ کو اپنے ہاتھ میں ڈالے؟ حضور اکرمﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد لوگوں نے اس شخص سے کہا کہ تو اپنی انگوٹھی اٹھا لے اور اس(کو بیچ کر )سے نفع اٹھا تو اس نے جواب دیا کہ خدا کی قسم!جب رسول اللہﷺ نے اس انگوٹھی کو پھینک دیا تو اب میں اس انگوٹھی کو کبھی بھی نہیں اٹھا سکتا( مشکوٰۃ،جلد۲،ص:۳۷۸،باب الخاتم)
ؔمیرے قلب کو بھی نصیب ہوں تیری ذات سے وہی نسبتیں
وہ جو رابطے تھے بلال کے وہ جو عظمتیں تھیں اویس کی