الیکشن 2023

پی ٹی آئی بمقابلہ پی ٹی آئی پلس

Published

on

نو مئی کے فسادات میں پاکستان تحریک انصاف کو سخت سے سخت سزا دینے کے لیے تیاریاں جاری ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ لوگ دبے لفظوں میں سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا واقعی سب کچھ منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا؟ مقدمات کے شفاف ٹرائل میں ہی اس کا جواب مل سکتا ہے۔ اس کا کوئی بھی فوری جواب اندازے کے سوا کچھ نہیں، اس طرح کے اندازوں پر مبنی تبصرے اور تجزئیے صورتحال کو مزید الجھا سکتے ہیں اس لیے ہم اس بحث کو یہیں چھوڑ کر اس نکتے کی طرف آتے ہیں کہ خزاں کے پتوں کی طرح جھڑتی تحریک انصاف اور عمران خان کے موجودہ بیانات سے یہ ضرور واضح ہے کہ وہ اس سب کے لیے تیار نہیں تھے۔

اگر تو سب کچھ منصوبہ بند تھا تو منصوبہ بندی کرنے والے بھول گئے تھے کہ کچھ لوگ پرانے حساب چکانے کے انتظار میں ہیں اور انہیں صرف ایک غلطی کا انتظار ہے۔نومئی کو یہ غلطی سرزد ہوگئی اور اس کا حساب بھی برابر جاری ہے۔ اس حساب کتاب کے ساتھ تحریک انصاف ڈرائی کلین کے عمل سے بھی گزر رہی ہے۔

پچھلے کالم میں بھی پی ٹی آئی کے ڈرائی کلین پروسیس کا ذکر کیا تھا۔ تحریک انصاف کی سیاست و حکومت کی پیدائش مصنوعی تولیدی عمل سے ہوئی تھی، اس عمل میں جنم لینے والے انقلابی اب پارٹی اور سیاست سب چھوڑ کر انقلاب کی موت کا اعلان کر رہے ہیں، اب وہی سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین انہیں گود کیوں لے رہے ہیں، بلکہ ان تازہ یتیموں کو گود لینے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔

وہ جماعتیں جوعمران خان سے الحاق یا پی ٹی آئی میں ضم ہو کر کامیابی کے خواب دیکھ رہی تھیں انھیں بھی یکا یک یاد آگیا کہ وہ الگ اور باوقار جماعت کا تشخص رکھتی ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی ) سے لے کر مسلم لیگ اعجاز الحق گروپ تک، سب فوج کی تعریف کا کلمہ پڑھنے لگے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ سب جانتے ہیں ان کی تخلیق کب اور کیوں ہوئی۔ یہ بھی بھٹکی ہوئی اور گمراہ جماعتیں تھیں جو اپنے خالقوں کو رسوا کرنے میں اپنے قد اور حیثیت کے مطابق حصہ ڈال رہی تھیں۔

پرویزالہی بھی عمران خان کی مقبولیت سے اس قدر متاثر تھے کہ پرانے رشتے ناطے بھول کر تحریک انصاف کی کشتی کے سوار بن گئے۔ پرویز الٰہی کا خیال تھا کہ جب بھی انتخابات ہوں گے، کوئی بھی جماعت دور دور تک مقابلے میں نہیں ہوگی، اب حالات بدلے بدلے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ پرویز الٰہی اب بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کا ووٹر اب بھی جوق در جوق پولنگ سٹیشنوں کا رخ کرے گا اور تحریک انصاف اگر پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت نہ بنی تو دوسرا نمبر تو اب بھی پکا ہے۔

حکومتی حکمت عملی بھی عمران خان سے مختلف نظر نہیں آتی، جس طرح عمران خان نے اپنے دور میں اپوزیشن کو مقدمات میں الجھائے رکھا، موجودہ حکومت بھی اس پر عمل پیرا ہے۔تحریک انصاف کو سیاسی طور پر کمزور کرنے کے لیے الزامات اور پروپیگنڈہ بھی جاری ہے۔ غرض کچھ نیا نہیں۔

پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے کے لیے اب ایک نئی حکمت عملی بھی بن رہی ہے، کچھ سیاسی کرداروں کو میدان میں اتارا گیا ہے،جہانگیر ترین تحریک انصاف سے الگ ہونے والوں کو گھیر گھار کر نیا گروپ یا جماعت بنانے کی تگ و دو میں ہیں، جہانگیر ترین بھی حساب چکتا کرنے کی تاک میں تھے اور انہیں یہ موقع میسر آگیا ہے۔

جہانگیر ترین سیاست میں کھلاڑی کی بجائے کوچ کی پوزیشن کو ترجیح دیتے رہے ہیں کیونکہ انہیں کھلاڑی میسر ہیں یا پھر وہ دوسری ٹیموں کے کھلاڑی توڑ لیتے ہیں اور وسائل کی بھی کمی نہیں۔ پی ٹی آئی پر طویل عرصہ کی گئی بھاری سرمایہ کاری بھی ان کی سوچی سمجھی حکمت عملی تھی  ، اگرعمران خان کی اہلیہ اگر وزیراعلیٰ پنجاب مسلط نہ کراتیں توجہانگیر ترین سرمایہ کاری کے عوض پنجاب سے بھی وصول کر چکے ہوتے۔

جہانگیر ترین اب ایک بار پھرعلیم خان، عون چوہدری، اسحاق خاکوانی سمیت تحریک انصاف سے ناراض اور بوجوہ علیحدہ ہونے والے لیڈروں  کو اکٹھا کیا ہےاور مزید لیڈر بھی ان سے رابطے میں ہیں، ان رابطوں کے نتیجے میں ایک ” پی ٹی آئی پلس ” وجود میں آتی نظر آرہی ہے۔ایسے میں وہ مناظر اور وقت دلچسپی سے خالی نہ ہو گا جب آنے والے انتخابات میں جو 2023میں منعقد ہوتے نظر نہیں آرہے،پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ٹی آئی پلس سے ہوتا ہوا نظر آئے گا۔

عمران خان کے لیےاینٹی (جے کے ٹی ) بیانیہ بنانے میں دقت نظر آئے گی کیونکہ ترین پارٹی کے پرانے رازوں سے واقف ہیں۔ ترین کو بھی اپنی وضع داری چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف کے مخالف بیانیہ سامنے لانا ہو گا۔لیکن اس سارے کھیل میں مسلم لیگ ن کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی، کیونکہ وہ الیکشن میں جو محاذ پاکستان تحریک انصاف  کے خلاف کھولنے کی خواہش رکھتی  ہے، وہ کام اب “پی ٹی آئی پلس” انجام دے گی۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version