تازہ ترین

میثاق مفاہمت ناگزیر ہے!

Published

on

یہ کوئی فلمی سین نہیں ہے لیکن فلمی سین جیسا ہی ہے ۔ فرض کریں کہ آپ ایک پہاڑی پر چڑھ رہے ہیں ۔ یہ بھی فرض کر لیں کہ تھوڑے فاصلے پر آپ کا مخالف بھی پہاڑی پر چڑھ رہا ہے ۔ تیسرا فرض یہ کر لیں کہ کوہ پیمائی کے دوران ایک ایسا لمحہ آ جاتا ہے کہ آپ کی اوپر چڑھنے والی حفاظتی رسی ٹوٹ جاتی ہے یا پھر آپ کے مخالف کی رسی ٹوٹ جاتی ہے اور دونوں کو اپنی جان بچانے کےلیے ایک ہی رسی پر لٹکنا پڑتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اب آپ کیا کریں گے;238; اُس رسی پر لٹکے لٹکے ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑیں گے، ایک دوسرے کے مخالف سمت میں زور لگائیں گے، ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش کریں گے یا باہمی جدوجہد کر کے کسی محفوظ جگہ پر منتقل ہونے کا قصد کریں گے۔

آپ کے ذہن میں اس سوال کا جو بھی جواب آئے، آپ کے جواب میں ہی اس سوال کا جواب مضمر ہے کہ اپوزیشن کو وزیر اعظم شہباز شریف کا تجویز کردہ میثاق مفاہمت قبول کر لینا چاہیے یا نہیں؟ اپنی معیشت، زراعت، صنعت، معاشرت، درآمدات و برآمدات اور زرِ مبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے پاکستان کی جو موجودہ صورت حال ہے کیا اسے اس رسی سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی جس کے ساتھ حکومت اور اپوزیشن، دونوں لٹکے ہوئے ہیں اور ساتھ میں عوام بھی، جو تشویشناک نظروں سے یہ دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے یہ نئے ناخدا آپس میں لڑ کر پہلے سے شکستہ رسی کو مزید کمزور کرتے ہیں یا باہمی مفاہمانہ طرزِ عمل سے معاملات کو کسی محفوظ و مامون منزل کی جانب لے جاتے ہیں۔

خاکسار کی رائے لی جائے تو یہ عرض کروں گا کہ جس طرح زندگی موت کا مسئلہ درپیش ہو تو حرام چیز کھانا جائز ہو جاتا ہے، اسی طرح ملک کو شدید اور گمبھیر نوعیت کے مسائل کی دلدل سے نکالنے کےلیے حکومت اور اپوزیشن کا ایک پیج پر آنا بھی ناگزیر ہو چکا ہے، یعنی اس کے بغیر گزارہ ہی نہیں کہ دونوں مل بیٹھیں ،سر جوڑیں، سوچ بچار کریں اور ملک و قوم کو درپیش مسائل کا کوئی مشترکہ، متحدہ حل نکالیں ۔ شاخِ نازک پہ آشیانہ ہے، اب یہ حکومت اور اپوزیشن، دونوں کی مرضی ہے کہ آپس میں لڑ کر اسے تباہ و برباد کر دیں یا پھر مفاہمت کے تحت اس کی شکستگی کو ختم کرنے کا کوئی قصد کریں ۔

میری رائے یہ ہے کہ اپوزیشن کو اگر میثاق مفاہمت مکمل طور پر اور کل وقتی قابلِ قبول نہیں ہے تو اسے جزوی طور پر اور جُز وقتی ہی قبول کر لینا چاہئے کہ ملک کو کچھ تو سکھ کا سانس میسر آئے، حالات میں کچھ تو بہتری آئے ۔ نو منتخب وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت آنے والے دنوں میں جو اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اس کے اثرات و نتائج ایک سال کے بعد عوام تک پہنچنا شروع ہوں گے ۔ تو کیا خیال ہے، ایک سال کےلیے میثاق مفاہمت قبول کرنے میں کوئی مضائقہ ہے یا پھر دو برسوں کے لیے تاکہ ملک اقتصادی لحاظ سے اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکے۔ مالی لحاظ سے مستحکم ہو سکے۔

حالات کس قدر خراب ہو چکے ہیں اس کا اندازہ یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ آف پیس کی پچھلے سال منظرِ عام پر آنے والی ایک رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو اپریل 2023ء سے جون2026ء تک 77.5 بلین ڈالر کے بیرونی قرضے واپس کرنے ہیں اور 350 بلین ڈالر والی معیشت کےلیے یہ ایک بہت بڑا بوجھ ہے ۔ اس مدت کا ابھی ایک سال گزرا ہے ۔ کچھ قرضے ادا کیے گئے ہوں گے لیکن زیادہ تر ابھی ادا کرنے باقی ہیں ۔ زیادہ تر قرضے چینی اقتصادی اداروں، پرائیویٹ کریڈیٹرز اور سعودی عرب کے ہیں جو واپس کرنے ہیں ۔ چین اور سعودی عرب سے ہم کئی بار قرضے ری شیڈول کرا چکے ہیں، اسلیے ممکن ہے مزید گنجائش نہ بچی ہو ۔

رپورٹ کے مطابق 2024-25ء میں پاکستان کی ڈیٹ سروسنگ 24 بلین ڈالر کے لگ بھگ رہنے کی توقع ہے ۔ ان میں 8 بلین ڈالر لانگ ٹرم ڈیٹ ری پے منٹس کے زمرے میں آتے ہیں جبکہ 14 بلین ڈالر شارٹ ٹرم ڈیٹ ری پے منٹس کے کھاتے میں ۔ اس سے اگلے سال (2025-26 ء) میں بھی پاکستان نے کم و بیش اسی مقدار میں غیر ملکی قرضے واپس کرنے ہیں ۔ درآمدات،برآمدات کی بات کی جائے تو اسی رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ پچھلے تین برسوں میں (بارِ دگر یاد رہے کہ یہ رپورٹ 2023ء میں سامنے آئی تھی) برآمدات 164 بلین ڈالر رہیں جبکہ اسی عرصے میں درآمدات کا حجم 170 بلین ڈالر رہا ۔ اگلے تین برسوں میں بھی درآمدات و برآمدات کے حوالے سے صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی واقع ہونے کی کوئی امید اقتصادی ماہرین نہیں کر رہے ہیں ، جس کا مطلب یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اگلے تین برسوں میں بھی بڑھتا رہے گا جس کو پورا کرنے کےلیے مزید قرضوں کی ضرورت ہو گی ۔ ہمیں پہلے ہی بھاری مقدار میں قرضے واپس کرنے ہیں، جب مجبوری میں نئے قرضے لینا پڑیں گے تو ظاہر ہے قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا ۔ اس صورت حال کے ازالے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ قومی جی ڈی پی میں اضافہ کیا جائے جبکہ جی ڈی پی میں اضافے کےلیے کاروباری،تجارتی، زرعی اور صنعتی سرگرمیاں بڑھانے کے ساتھ ساتھ سروسز کے شعبے کو بھی مہمیز کرنا ہو گا اور اس حقیقت سے کون ناواقف ہو گا کہ تجارتی و صنعتی سرگرمیاں وہاں فروغ پاتی ہیں جہاں سیاسی استحکام ہو اور سیاسی استحکام کا تقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر ہوں ، یعنی معاملہ گھوم گھما کے وہیں آ جاتا ہے کہ میثاق جمہوریت پر سب کو رضا مند ہونا پڑے گا، ورنہ بھوک اتنی بڑھ جائے کہ کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا ۔ پاکستان کے بد خواہ تو ابھی سے بہت کچھ کہہ اور سن رہے ہیں ۔ یہ چہ میگوئیاں تبھی بند ہوں گی جب حکمران (حکومت پلس اپوزیشن) ہم آہنگ ہوں گے ۔

ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا خمیازہ ماضی میں تقریباً سبھی بھگت چکے ہیں ۔ اب بھی اگر ایک دوسرے کو گھسیٹنے اور حکومت نہ کرنے دینے کا ہی فیصلہ کیا گیا تو نتائج یقیناً ماضی سے مختلف نہیں ہوں گے ۔ اسلیے سب کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے ۔ فروری کے انتخابات کے نتیجے میں جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی پر قائم رکھنے کا جو ایک موقع ملا ہے اسے اپنی اپنی اناؤں کو پروان چڑھانے کےلیے ضائع بالکل نہیں کیا جانا چاہیے ورنہ وہی بات کہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ۔ اگر کچھ خلاف معمول ہوا تو معاملات کے ہاتھ سے بالکل نکل جانے کے اندیشے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ اب تو اقتدار والوں کے پاس سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سید محسن نقوی جیسے متبادل بھی موجود ہیں ۔ ان کی کوئی سیاسی بنیاد نہیں تھی ۔ ان کی بیوروکریسی میں کسی قسم کی کوئی جڑیں نہیں تھیں ۔ ان کو حکمرانی کا کوئی واضح تجربہ بھی نہیں تھا ۔ پھر بھی انہوں نے ڈیلیور کیا اور ایسا ڈیلیور کیا کہ نئی مثالیں قائم کر دیں ۔ اگر موجودہ سیٹ اپ نہیں چل سکے گا تو پھر لانے والے انہی کو لے آئیں گے جو بارہ تیرہ ماہ کامیابی سے حکومت کرکے ابھی ابھی رخصت ہوئے ہیں ۔ گڈ گورننس اور بیڈ گورننس کے حوالے سے اب گیند موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے کورٹ میں ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں، اناؤں پر قائم رہتے ہیں یا کچھ ملک اور قوم کے بارے میں بھی سوچتے ہیں۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین

Exit mobile version