ٹاپ سٹوریز
ری امیجننگ پاکستان: مصطفیٰ نواز کھوکھر نے نئی سیاسی جماعت بنانے کا عندیہ دے دیا
مختلف سیاسی جماعتوں سے راستے جدا کرنے والے سیاست دانوں نے مکالمے کا ایک فورم ری امیجننگ پاکستان کے نام سے تشکیل دیا اور کچھ جماعتوں سے وابستہ رہنما اپنی جماعتی وابستگی برقرار رکھتے ہوئے اس پلیٹ فارم پر نمودار ہوئے تو سیاسی حلقے اس پیشرفت پر چونکے، دبی دبی آوازوں میں باتیں شروع ہوئیں کہ نئی سیاسی جماعت کا ڈول ڈالا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے ری امیجننگ پاکستان فورم میں شریک سیاست دان بار بار یہ دہراتے نظر آئے کہ یہ صرف مکالمے کا فورم ہے۔ اردو کرانیکل نے اس فورم کے شریک بانی مصطفیٰ نواز کھوکھر سے مل کر کچھ سوالوں کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کی۔
https://www.youtube.com/watch?v=RuRU2e8_3rk
کیا صرف مکالمے سے کوئی تبدیلی ممکن ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب اس فورم کے جواز سے متعلق ہے، مصطفیٰ نواز کھوکھر سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ابھی تک مکالمہ کا پلیٹ فارم ہے لیکن ضرورت پڑی تو سیاسی جماعت بنانے کا آپشن کھلا ہے۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر سے پوچھا گیا کہ کیا یہ سیاسی پلیٹ فارم ہے یا مکالمے تک محدود رہے گا؟ ۔ اس پر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے جواب دیا کہ اگرچہ اس پلیٹ فارم میں شریک مفتاح اسمعیل ، شاہد خاقان عباسی ، لشکری ریئسانی سمیت دیگر افراد سیاستدان ہی ہیں اور ہم نے یہ پلیٹ فارم شروع ہی شعور جگانے کے لئے کیا تھا۔
ملک اس وقت ایک ناکام ریاست کا تصور پیش کر رہا ہے ،جس میں سیاست بھی ناکام ہو چکی ہے تو ہم سیاستدان بھی فکرمند ہیں کہ یہ ملک جا کہاں رہا ہے ۔ عوام میں بھی تشویش پائی جاتی ہے کہ حالات کب ٹھیک ہوں گے اور کون ٹھیک کرے گا۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ کہ اگر ہم نے اپنی سیاست اور معیشت کو نہ بچایا تو ملک ایک بڑے سانحے سے دوچار ہو سکتا ہے اور اگر پاکستان خدانخواستہ ڈیفالٹ کر جاتا ہے تو ہمارے ہاں موجود نسلی، لسانی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر دراڑایں مزید گہری ہو جائیں گی۔
ان سے سوال کیا گیا کہ کیاصرف مکالمے کی طاقت سے ملک اور نظام کو درست کیا جا سکتا ہے؟۔ اس پران کا کہنا ہے کہ ہمارے سامنے اور تاریخ میں بھی مثالیں موجود ہیں کہ معاشرتی تحریکوں اور معاشرتی دباؤ بنا کر بھی تبدیلی لائی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر دفعہ سیاسی جماعت بنا کر اور الیکشن لڑ کر ہی تبدیلی لائی جائے۔ ہمارے اپنے ملک میں حق دو تحریک نے گوادر میں اس حد تک دباؤ بنایا کہ ان کے مطالبات کو سننا پڑا ، اسی طرح سے پشتون تحفظ تحریک موجود ہے، لیکن جب ایسا محسوس ہوا کہ مکالمے کی طاقت سے بنائے جانے والے معاشرتی دباؤ کو خاطر میں نہیں لایا جا رہا تو پھر سیاسی جماعتیں بھی تشکیل ہوتی ہیں۔
ہمارا فی الحال سیاسی جماعت بنانے کا ارادہ تو نہیں لیکن آنے والے وقت میں دیکھتے ہیں کہ حالات کیا کروٹ لیں اس حوالے سے کسی امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ہمارے راستے کھلے ہیں۔
عمومی طور پر ملک میں نئی سیاسی دھڑے بندیاں پہلے سے موجود جماعتوں کا زور توڑنے اور پریشر گروپ بنانے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں ، مصطفیٰ نواز کھوکھر سے ایسے ہی خدشات پر سوال کیا گیا کہ کیا یہ سب اسٹیبلشمنٹ کے اشارہ پر ہو رہا ہے؟۔ اس پر ان کا کہنا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ خود سے کیا کوئی ایسا مکالمہ یا تحریک شروع کروائے گی جس میں یہ بات ہو رہی ہو کہ کہ ملک مزید سیکورٹی ریاست کے طور پر نہیں چل سکتا ، کیونکہ 75 سال سے تو وہ اسے سیکورٹی اسٹیٹ کے طور پر چلاتے رہے ہیں۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ ہمارے ساتھ ایک سانحہ یہ ہوا ہے کہ ہماری اجتماعی نفسیات کی تربیت ہی ان خطوط پر ہو چکی ہے کہ اگر کوئی چیز اپنے طور پر بھی شروع ہو تو ذہن میں سوال یہی اٹھتا ہے کہ یہ کس کے اشارے پر شروع ہوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہماری سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت اس حد تک رہی ہے کہ لوگ اب یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی تحریک اپنے آپ بھی شروع ہو سکتی ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ اپنے ہی خلاف کوئی تحریک شروع کروا رہی ہے تو پھر تو ان کی عقل سلیم کو داد ہی دینی چاہئے۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر کی پیپلز پارٹی سے پرانی وابستگی کو دیکھتے ہوئے ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پیپلز پارٹی کے نظریے پر اب بھی یقین رکھتے ہیں؟۔ اس پر ان کا کہنا ہے کہ وہ ترقی پسند معتدل بائیں بازو کی سیاست اور اعلی اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں بھی اس حوالے سے ان کی ایک واضح پوزیشن تھی۔
سابق سینیٹر کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگوں کے سامنے دائیں بازو کی سیاست میں کئی آپشنز موجود ہیں لیکن ایک معتدل بائیں بازو کے جھکاؤ والی جماعت کے حوالے سے ایک خلا موجود ہے جسے کسی زمانے میں پیپلز پارٹی نے پورا کر رکھا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے، پاکستان میں آزاد ترقی پسند سیاست کی بہت جگہ ہے۔