کالم
تعلقات مزید خراب نہیں ہوں گے، شی، بائیڈن ملاقات کا خلاصہ
چینی رہنما شی جن پنگ نے بدھ کے روز امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ ایک تاریخی ملاقات میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے تیار ایک فرینڈلی چین کا تاثر پیش کیا، بیجنگ کے لہجے میں نمایاں تبدیلی نظر آئی، وہ واشنگٹن کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے نظر آتا ہے۔
آیا یہ تبدیلی متنازعہ تعلقات کے لیے دیرپا ہے، اس کی جانچ ابھی باقی تھی جب ملاقات کے بعد اکیلے پریس کانفرنس کے دوران بائیڈن نے ایک بار پھر صدی شی کو ڈکٹیٹر کہا۔
اس سے پہلے جون میں بائیڈن نے شی کو ڈکٹیٹر کہا تھا تب بیجنگ نے شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔
جمعرات کو چینی وزارت خارجہ کی بریفنگ میں بائیڈن کے تازہ ترین تبصرے کے بارے میں پوچھے جانے پر، ایک ترجمان نے اسے "انتہائی غلط” اور "غیر ذمہ دارانہ سیاسی چالبازی” قرار دیا، جس کی چین سختی سے مخالفت کرتا ہے۔
ترجمان ماؤ ننگ نے کہا کہ جس چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ چین اور امریکہ کے تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والے خفیہ مقاصد کے ساتھ ہمیشہ کچھ لوگ رہیں گے۔ وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا اس بار مزید کوئی رد عمل سامنے آئے گا،لیکن ابھی تک کا ردعمل پہلے کی طرح شدید نہیں۔
بدھ کو امریکہ اور چین دونوں کے بیانات کے مطابق، دونوں فریقوں نے کئی گھنٹوں کی "تعمیری” ملاقاتوں کے دوران فوجی مواصلات کو بحال کرنے اور چین سے امریکہ کو فینٹینیل کے بہاؤ کا مقابلہ کرنے پر اتفاق کیا۔چین نے مذاکرات کو "مثبت” اور "جامع” کا لیبل دیا
چین کے سرکاری میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر، جہاں ہیش ٹیگ #Planet-Earth-Is-Big-Enough-For-Both-China-and-The-US، ٹرینڈ کر رہا تھا، وسیع تر تاثر اچھا دکھائی دیا۔
چینی سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح بائیڈن نے شی کو ایک سرسبز اسٹیٹ کے گرد سیر کے لیے مدعو کیا جہاں میٹنگ ہوئی اور یہ کہ امریکی رہنما نے "ذاتی طور پر انھیں الوداع کہنے کے لیے کار تک لے کر گئے” ایک تفصیل جسے چینی سوشل میڈیا پر
ایک اور ٹاپ ٹرینڈنگ ہیش ٹیگ میں بھی اجاگر کیا گیا تھا۔
تقریب کی مثبت کوریج سے امریکا مخالف بیانیہ میں ایک وقفہ آیا جو اکثر چینی ریاست اور سوشل میڈیا پر چلتا ہے۔ امریکہ مخالف بیان بازی چینی قوم پرستی کو فروغ دینے والا ایک اہم موضوع رہا ہے۔
پرتپاک استقبال اور بائیڈن کے ساتھ پراعتماد موجودگی کی نمائش شی کے لیے انتہائی اہم ہے، جو تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ معاشی کمزوری کے وقت نہ صرف ایک پیچیدہ تعلقات کو مستحکم کرنے کے خواہاں ہیں بلکہ چینی عوام کے سامنے چین کے خارجہ امور کو مہارت سے چلاتے ہوئے دکھانا چاہتے تھے۔
شی کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب چینی معیشت پراپرٹی مارکیٹ کے بحران، مقامی حکومت کے بلند قرضوں اور نوجوانوں کی ریکارڈ بے روزگاری سے نبرد آزما ہے۔ ایک ہی وقت میں، کئی شعبوں میں کریک ڈاؤن نے کاروباری اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے اور بہت سے لوگوں کو یہ سوال کرنے پر مجبور کیا ہے کہ چین میں کون سے مواقع باقی ہیں۔
دو طرفہ ملاقات کے بعد کیلیفورنیا میں چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی کی پریس کانفرنس میں بھی ملک کے عوام کے لیے آپٹکس پر زور دیا گیا،
وانگ ژی نے نوٹ کیا کہ بائیڈن نے "صدر شی جن پنگ کو خصوصی طور پر سربراہان مملکت کی میٹنگ کے لیے علیحدہ دعوت نامہ بھیجا”، ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن فورم کے دوران ہونے والے دیگر دو طرفہ میٹنگ کے انتظامات کے برعکس جس میں شی اور بحر الکاہل کے دیگر رہنما شامل ہیں۔
وانگ نے کہا کہ "(شی بائیڈن کی ملاقات) ایک سنگ میل بننا یقینی ہے … اور آج کے بین الاقوامی تعلقات میں ایک اہم واقعہ،” وانگ نے کہا کہ چار گھنٹے کی آمنے سامنے بات چیت "ایک اہم پس منظر” میں ہوئی۔
شی نے امریکی سی ای اوز کے سامنے ایک عشائیہ کی تقریب میں بات کرتے ہوئے بھی مفاہمت آمیز لہجہ اختیار کیا۔
انہوں نے سامعین کو بتایا کہ امریکہ اور چین کے تعلقات کو تشکیل دینے والا سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا وہ حریف ہیں یا شراکت دار۔
"اگر ہم ایک دوسرے کو سب سے بڑا حریف سمجھتے ہیں، سب سے اہم جغرافیائی سیاسی چیلنج اور ایک مستقل خطرہ، یہ لامحالہ غلط پالیسیوں، غلط اقدامات اور غلط نتائج کا باعث بنے گا،” شی نے سامعین کو بتایا جس میں ایپل کے سی ای او ٹم کک اور ٹیسلا کے ایلون مسک بھی شامل تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین امریکہ کا شراکت دار اور دوست بننے کے لیے تیار ہے۔
یہ ملاقات جہاں اختلافات کم کرنے میں معاون تھی وہیں دونوں فریقوں کے لیے اپنے اختلافات کو اجاگر کرنے کا ایک موقع بھی تھی، کئی ایک معاملات پر کوئی اتفاق رائے نہ ہوا اور جن معاملات پر کوئی سمجھوتہ بھی ہوا ہے وہاں بھی کچھ نازک گراؤنڈز موجود ہیں۔
فوجی مواصلات کی بحالی کا اعلان، جس پر بائیڈن انتظامیہ نے طویل عرصے سے زور دیا تھا، کہا گیا کہ یہ "مساوات اور احترام کی بنیاد پر” دوبارہ شروع ہوں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں کسی بھی وقت جب چین امریکہ کے کسی بھی اقدام سے ناراض ہوتا ہے، چین کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک بار پھر فوجی سے فوجی مذاکرات کو منقطع کر رہا ہے اور اس کا الزام امریکہ پر ڈال سکتا ہے (کیونکہ) اب چین ‘باہمی احترام’ محسوس نہیں کرتا۔ یہ جملہ مذاکرات کی بحالی کی بنیاد کو کمزور کرتا ہے
تائیوان پرشی نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ جزیرے کو مسلح کرنا بند کرے اور چین کے "پرامن دوبارہ اتحاد” کی حمایت کرے۔
بائیڈن نے تائیوان کے بارے میں دیرینہ امریکی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ آبنائے تائیوان کے اختلافات کو پرامن طریقوں سے حل کیا جانا چاہیے
شی نے امریکہ سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ چین کو دبانے یا اس پر قابو پانے کی منصوبہ بندی نہ کرے۔
چین ایشیا میں امریکہ کی اپنے اتحاد کو مضبوط بنانے کی کوششوں اور بیجنگ کو ہائی ٹیک کی برآمد پر پابندیوں کو اپنی اقتصادی ترقی کو روکنے کی کوششوں کے طور پر دیکھتا ہے۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کا مقصد ایک جارحانہ اور آمرانہ چین کے خلاف اس کی قومی سلامتی کی حفاظت کرنا ہے۔
شی نے مزید کہا، "دونوں فریقوں کو ایک دوسرے کے اصولوں اور بنیادی خطوط کو سمجھنا چاہیے۔
ایک دوسرے کے ارادوں کے بارے میں ہر ایک کو گہری تشویش ہے ایک ملاقات کے بعد ان کے حل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ ان معاہدوں پر آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں کیسے عمل ہوتا ہے ؟ اس عمل سے اندازہ ہوگا کہ آیا چین اور امریکہ دونوں پائیدار استحکام کے لیے پرعزم ہیں۔
اس ملاقات کا ایک فوری نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ اور چین کے تعلقات اگلے سال میں مزید خراب نہیں ہوں گے، لیکن کیا یہ بہت جلد بحال ہو جائیں گے اور بہت جلد نمایاں طور پر پرجوش ہو جائیں گے؟اس کا جواب ابھی نہیں دیا جا سکتا۔
یقیناً، شی جن پنگ امریکہ اور چین کے بہتر تعلقات چاہتے ہیں، لیکن بیجنگ کو اس بات کا ادراک ہے کہ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ چین کو قابو میں رکھنا چاہتا ہے۔
بین الاقوامی تعلقات پر نظر رکھنے والے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ژی نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں: تعاون کے وعدوں کے بدلے امریکی پالیسی مراعات حاصل کرنا، دوطرفہ کشیدگی میں کمی جو اقتصادی ترقی پر زیادہ توجہ مرکوز کرے گی، اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اپیل کرنے کا موقع جو تیزی سے چین سے دور ہو رہے ہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں فینٹینیل کے بہاؤ کو روکنے کے بارے میں چینی تعاون سربراہ اجلاس کے لیے بائیڈن کے اینڈے میں سرفہرست تھا۔ اس پر شی نے اتفاق کیا، اس کے بدلے میں، امریکی حکومت نے جمعرات کو ایک چینی پبلک سیکیورٹی فرانزک انسٹی ٹیوٹ کو کامرس ڈیپارٹمنٹ کی تجارتی پابندیوں کی فہرست سے ہٹا دیا۔
بائیڈن نے چین کی طرف سے فوجی مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے معاہدے کو ایک کامیابی قرار دیا۔ لیکن اس سے چینی فوجی رویے میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے جسے امریکہ خطرناک سمجھتا ہے، جیسے کہ بین الاقوامی پانیوں میں امریکی بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں کو روکنا۔
بائیڈن انتظامیہ کے عہدیداروں نے تسلیم کیا ہے کہ فعال فوجی تعلقات استوار کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا دفاعی عہدیداروں کے درمیان نیم باقاعدہ میٹنگز۔
صدر شی نے تجویز پیش کی کہ چین امریکہ کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کا خواہاں ہے، اور انہوں نے کاروباری رہنماؤں کو بتایا کہ چین امریکہ کا ایک "ساتھی اور دوست” بننے کے لیے تیار ہے، یہ الفاظ جزوی طور پر ایک کاروباری برادری کے لیے ہیں جو چین کے کریک ڈاؤن سے پریشان ہیں۔
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین7 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان7 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز7 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین9 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی