Urdu Chronicle

Urdu Chronicle

تازہ ترین

شہباز شریف ایک کمزور وزیراعظم؟

Published

on

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے سمدھی یعنی بیٹی کے سسر اسحاق ڈار کو وزیر اعظم شہباز شریف نے  ڈپٹی پرائم منسٹر بنا دیا، دوسری طرف مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ خاں نے اعلان کیا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی جگہ اُن کے بڑے بھائی نواز شریف دوبارہ پارٹی کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔

اوپر تلے ہونے والے یہ اقدام اور اعلان بظاہر تو معمول کی کارروائی لگ رہے ہیں لیکن در حقیقت یہ سیاسی اعتبار سے غیر معمولی اقدامات سے کم نہیں۔ نواز شریف 8 فروری کے انتخابات کے بعد سیاسی اعتبار سے زیادہ متحرک نظر نہیں آ رہے اور اپنی بیٹی وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ساتھ پنجاب کی حد تک سیاسی سرگرمیوں میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ نواز شریف، جو خود بھی دو مرتبہ وزیر اعلیٰ پنجاب رہے ہیں، پنجاب حکومت کے اجلاسوں میں شرکت اور پھر بیٹی کیساتھ روٹی سستی کرنے کے حکومتی فیصلے پر عمل درآمد کیلئے بیٹی کیساتھ تندور پر دکھائی دیئے۔

تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کو اسلام آباد کی سیاسی سرگرمیوں میں بالکل کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ چاہے وہ سعودی عرب کے وفد کا پاکستان کا دورہ ہو یا ایرانی صدر کی  آمد کا معاملے ہو، نواز شریف ان دونوں مواقع پر نظر نہیں آئے۔ یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ آیا  نواز شریف دانستہ طور پر ان سرگرمیوں سے دور رہے یا پھر کوئی اور رکاوٹ کی وجہ بنی ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف ان دونوں مواقع پر اپنے بڑے بھائی اور تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف کے تجربہ سے فائدہ لے سکتے تھے، جیسے نواز شریف  پہلی مرتبہ وزیر اعلی بننے والی اپنی بیٹی کیلئے اپنے تجربہ کا استعمال کر رہے ہیں۔

ایسے وقت جب نواز شریف صرف ایک صوبے کی حد تک ہی  سر گرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں، اچانک رانا ثناء اللہ نے یہ اعلان کر دیا کہ نواز شریف دوبارہ مسلم لیگ ن کی صدارت سنبھالیں گے۔ نواز شریف نااہلی کی سزا کے بعد مسلم لیگ نون کی صدارت سے ہٹ گئے تھے اور یہ عہدہ شہباز شریف کو دے دیا گیا تھا۔ اب رانا ثناء نے یہ اعلان کیا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کی سزا ختم ہوگئی ہے اور ان کے صدر بننے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی، اس لیے وہ مسلم لیگ نون کے دوبارہ صدر بن جائیں۔ اس اعلان کا صاف اور دوٹوک مطلب یہ ہے کہ نواز شریف کے صدر بننے سے شہباز شریف کے پاس یہ عہدہ نہیں رہا۔

ملک میں زیادہ تر پارٹی صدرو ہی موقع آنے پر وزیر اعظم بنے ہیں۔ بینظیر بھٹو بھی جب پہلی مرتبہ وزرات عظمیٰ پر فائز ہوئی تھیں وہ پارٹی کی شریک چیئرپرسن تھیں۔ اس کے بعد جب وہ دوسری مرتبہ اس عہدے پر فائز ہوئیں تو الحمرا میں ہونے والی ایک تقریب میں ایک قرار داد کے ذریعے انہیں پارٹی کی چیئرپرسن بنا دیا گیا۔ اس طرح ان کی والدہ نصرت بھٹو چیئرپرسن کے عہدے محروم ہوگئیں تھیں۔

اگرچہ کئی ایسے وزراء اعظم بھی رہے ہیں جن کے پاس اپنی جماعت کی صدارت نہیں تھی لیکن ایسے وزرا اعظم اپنی سیاسی جماعت کے فیصلوں کے پابند رہے۔ ان میں سے یوسف رضا گیلانی بھی ہیں جنہوں نے عدالتی حکم پر خط نہ لکھنے پر نا اہلی کی سزا بھگتی کیونکہ ان کی جماعت پیپلز پارٹی کی قیادت کا فیصلہ تھا کہ خط نہ لکھا جائے۔

اب مسلم لیگ نون میں بھی صدارت کی تبدیلی کی بات ہو رہی ہیں اور نواز شریف پارٹی صدر کی حیثیت سے سیاسی میدان میں متحرک ہونگے اور آنے والے دن اس بات تعین کریں گے کہ وزیر اعظم شہباز شریف حکومت چلانےکے فیصلوں میں کس قدر  خود مختار ہونگے۔

ابھی نواز شریف کو مسلم لیگ نون کا صدر بنانے کے اعلان کو مشکل سے  48 گھنٹوں کا وقت گزرا ہوگا کہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنانے کا نوٹیفکیشن جاری ہوگیا۔ یہ نوٹیفکیشن ہفتہ وار تعطیل کے دن کیا گیا اور یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہفتہ وار تعطیل ختم ہونے کا انتظار تک نہیں کیا گیا، آخر کس بات کی جلدی تھی؟

اسحاق ڈار ملکی تاریخ میں دوسرے سیاست دان ہیں جو ڈپٹی پرائم منسٹر بنے ہیں ان سے پہلے پرویز الہی کو یہ عہدہ دیا گیا تھا، یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ آئینی نہیں بلکہ نمائشی نوعیت کا ہے. جون 2012 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں پرویز الٰہی کو بھی یہ عہدہ دیا گیا تھا اور یہ عہدہ ایک سیاسی ضرورت کی وجہ سے پرویز الہی کو ملا تھا۔

لیکن اب یہ سوال تو اپنی جگہ موجود ہے کہ اس عہدے پر اسحاق ڈار کو بیٹھنے کی آخری کار کیا ضرورت ہے؟ نواز شریف کے قریب ترین سمجھے جانے والے اسحاق ڈار کو یہ عہدہ دینے کی ضرورت کیا تھی؟ اسحاق ڈار کو نائب وزیر اعظم بنانے سے  ان افواہوں کو تقویت ملے گی کہ شریف خاندان میں اختلافات ہیں اور آہستہ آہستہ منظر عام پر آ رہے ہیں۔ پہلے ہی شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز بھی وزارت اعلیٰ نہ ملنے پر خوش نظر نہیں آ رہے اور وہ بھی اپنے تایا نواز شریف کی طرح ایک ایم این اے بن کر رہ گئے ہیں۔

اسحاق ڈار کے ڈپٹی پرائم منسٹر بننے سے یہ تاثر بھی مضبوط ہوا ہے کہ شریف خاندان تمام بڑے عہدے صرف خاندان کے اندر ہی رکھنے کو ترجیح دیتا ہے اور اسحاق ڈار کا تقرر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ تاثر خود مسلم لیگ نون کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

8 فروری کے انتخابات کے نتائج سے ایک بات تو عیاں ہے شہباز شریف کوئی مضبوط وزیر اعظم نہیں ہیں اور ایسے میں ان کے ساتھ ڈپٹی پرائم منسٹر مقرر کرنے کا کوئی ہو  یا نہ ہو مسائل ضرور پیدا کرسکتا ہے۔ اگر مسلم لیگ نون کے رہنماوں کا یہ موقف درست مان لیا جائے کہ اسحاق ڈار وزیر خارجہ کے عہدے پر خوش نہیں تھے تو پھر یہ سوال تو اپنی جگہ قائم رہے گا کہ کسی کی انا کی تسکین کیلئے نمائشی عہدے پر تقرر کرنا واقعی ضروری تھا تاکہ رشتہ داری نبھائی جاسکے۔

اس سے نہ تو عوام کو کوئی فائدہ ہے نہ ہی جمہوہت میں اس طرز کی سیاست کی گنجائش ہے۔

Continue Reading
2 Comments

2 Comments

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مقبول ترین