تازہ ترین
شہباز کی بے پر پرواز
انتخابی نتائج کے بعد وفاق اور چاروں صوبوں میں حکومت سازی کا عمل ہوگیا. سب سے آخر میں وزیر اعظم کا انتخاب ہوا اور شہباز شریف نے دوسری مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا. شہباز شریف، سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے بعد دوسرے وزیر اعظم ہیں جو مسلسل دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے ہیں.
شہباز شریف وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے میں تو کامیاب ہو گئے ہیں لیکن اس کے آگے مراحل آسان نہیں ہیں. خود شہباز شریف کے بڑے بھائی اور تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف نے نشاندہی کی کہ آئندہ دو سے اڑھائی برس مشکل ترین وقت ہوگا۔
نئی اتحادی حکومت کو پہلے ہی پی ڈی ایم کا تسلسل کہا جا رہا ہے اور پی ڈی ایم حکومت کی مایوس کن کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ نگران حکومت کے اقدامات بھی ایسے نہیں ہیں جن کو سراہا جاسکے اور وقت آنے پر نگران حکومت کے اقدامات کا جواب بھی نئی حکومت دینا ہوگا اور حکومت میں اتنی سکت نہیں ہیں کہ وہ نگران حکومت کی کارکردگی پر کوئی نکتہ چینی کرسکے۔
نئی حکومت کو مختلف نوعیت کے مسائل کا سامنا ہوگا۔ ان مسائل میں سیاسی، اقتصادی اور قانونی سبھی شامل ہیں۔ شہباز شریف نے وزیر اعظم بننے کے فوری بعد اکٹھا چلنے کی پیشکش کی لیکن سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے اپوزیشن کی طرف اپنی توپوں کا رخ کر دیا جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اکٹھے بیٹھے اور ساتھ چلنے کی باتیں صرف اور صرف زبانی جمع خرچ ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن بھی اپنے جوبن پر ہے اور بھرپور انداز میں احتجاج کر رہی ہے بلکہ وہ باتیں بھی کی جا رہی ہیں جو 9 مئی کے بعد تحریک انصاف کیلئے کرنا مشکل ہوگئی تھیں۔ اپوزیشن نے نو مئی کی تحقیقات کی جوڈیشل انکوائری کرانے بھی مطالبہ کر دیا اور اب آہستہ آہستہ تحریک انصاف کا احتجاج سڑکوں پر شروع ہو رہا ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ احتجاج بہت ہی محدود پیمانے پر ہوا ہے لیکن یہ جمود ٹوٹنے کے برابر ہے. احتجاج کیخلاف ریاستی مشینری جو بھی کرے گی اس کی گونج اب اسمبلیوں کے اندر بھی سنائی دے گی۔
اپوزیشن پہلے ہی انتخابی نتائج پر حکومت کو ٹارگٹ کر رہی ہے اور خواتین کی مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنے سے معاملہ مزید خراب ہوگا یہ نہیں لگتا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان یودھ ٹھنڈا پڑ جائے گا۔
ان حالات میں حکومت کے لیے اپوزیشن کو شانت رکھنا کوئی آسان ہدف نہیں ہوگا بلکہ اتحادیوں کی ایسی صورت حال میں سیاسی فرمائشیں بھی بڑھ جائیں گی اور حکومت کو اس کیلئے بھی جتن کرنے ہونگے کہ اپوزیشن کیساتھ ساتھ اپنے اتحادیوں کو کیسے رام کیا جائے۔ انتخابی نتائج اور اس کے بعد شروع ہونے والی قانونی چارہ جوئی بھی ایک تلوار کی طرح لٹکتی رہے گی اور اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ جس طرح 2013 کے انتخابات دھاندلی کے الزامات لگے اور الیکشن ٹربیونل نے جب چار انتخابی حلقوں کے بارے میں فیصلہ دیا تو تحریک انصاف کے موقف کو تقویت ملی تھی۔ اب ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو ماضی سے مختلف منظر ہوسکتا ہے۔
اپوزیشن دھاندلی کے الزامات کو لیکر اسمبلی کے اندر اور باہر احتجاج کررہی ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے فارم 45 کے اجرا کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ بیرسٹر گوہر خان نے پریس کانفرنس کی اور واضح کیا کہ فارم 45 سے ظاہر ہوگیا کہ کس طرح نتائج تحریک انصاف کے مخالفین کے حق میں تیار کئے گئے اور کچھ حلقوں میں ٹرن آوٹ سو فیصد سے بھی زیادہ ہوگیا۔ بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ انتخابات میں دھاندلی کے بعد کس طرح ماضی کو بھلا کر آگے کی طرف بڑھ جاسکتا ہے۔ فائن اور پلڈاٹ کی رپورٹس کو بھی اپوزیشن کے حق میں ایک دلیل کہا جاسکتا ہے۔
شہباز شریف حکومت کو اقتصادی محاذ پر ایک کٹھن صورت حال کا سامنا ہے. مہنگائی پر قابو پانے دیو جیسا چیلنج ہے۔ جون میں شہباز شریف نے بجٹ دینا ہے اور اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی کرنے ہیں۔ اس سب کیلئے پرانی اقتصادی ٹیم پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے حبیب بینک کے سی ای او اورنگ زیب رمدے، جو سابق اٹارنی جنرل پاکستان چودھری فاروق کے بیٹے، جسٹس خلیل الرحمان رمدمے اور مسلم لیگ نون کے رہنما اسد الرحمان کے بھتیجے ہیں، کو بطور مشیر وفاقی کابینہ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے عوام کو کیا ریلیف ملے گا اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ صرف اور صرف اچھے کی امید کی جاسکتی ہے.
شہباز شریف کے پاس اقتصادی صورتحال کے پیش نظر محدود آپشن ہے، یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا شہباز حکومت غیر مقبول فیصلے کرتی ہے؟ مسلم لیگ نون ماضی میں اس نوعیت کے فیصلوں کے نتائج عام انتخابات میں بھگت چکی ہے۔ مخلوط حکومت کو کمروز اور مفلوج حکومت بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام فیصلے اپنے تیئں نہیں لے سکتی اور اسے اپنے اتحادیوں کی خواہش کا بھی احترام کرنا ہوتا ہے۔ شہباز شریف اپنے اتحادیوں کو کس طرح رام کرتے ہیں اس کا اندازہ آنے والے وقت میں ہوگا لیکن اپوزیشن کو راضی کرنا ناممکنات میں سے ایک ہے۔ پی ڈی ایم نے جب پہلے حکومت سنبھالی تھی اس وقت ان کو اپوزیشن کا سامنا نہیں تھا اب ایک مضبوط اور متحرک اپوزیشن موجود ہے۔
مخلوط حکومت کے اتحادیوں اور منہ زور اپوزیشن تو ایک طرف اب مسلم لیگ نون کے باغی ارکان کی تعداد بھی دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے۔ پہلے شاہد خاقان عباسی ،پھر محمد زبیر، سینیٹر آصف کرمانی اور جاوید لطیف کے بعد اب سینیٹر جاوید عباسی بھی اسی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں۔ مسلم لیگ نون کو ان اٹھنے والی آوازوں کے بارے میں بھی کچھ سوچنا ہوگا کہیں ان کی تعداد میں اضافہ نہ جائے۔
شہباز حکومت کو پہلے سو دن کا پروگرام دینا چاہیے اور یہ پروگرام تعین کرے گا کہ وہ کس طرف جا رہے ہیں اور عوام کی دادرسی کیلئے ان کی پٹاری میں کیا ہے؟ ایک بات تو طے ہے اپوزیشن کی حکومت سے گھمسان کی جنگ جاری رہے گی.
-
کھیل1 سال ago
ورلڈ کپ میں ٹیم کی بدترین کارکردگی، سری لنکا نے اپنا کرکٹ بورڈ برطرف کردیا
-
کھیل1 سال ago
کم عمر لڑکی کی سیکس ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے پر ریئل میڈرڈ کے 3 کھلاڑی گرفتار
-
تازہ ترین7 مہینے ago
چیئرمین پی سی بی دو طرفہ سیریز پر بات کرنے آئرلینڈ پہنچ گئے
-
پاکستان7 مہینے ago
مریم نواز سے گورنر پنجاب کی ملاقات،صوبے کی ترقی کے لیے اہم امور پر تبادلہ خیال
-
ٹاپ سٹوریز1 سال ago
آئی ایم ایف بورڈ سے معاہدہ منظور،1.2 ارب ڈالر کا فوری اجرا ممکن، باقی رقم دو سہ ماہی جائزوں سے مشروط
-
کالم2 سال ago
اسلام میں عبادت کا تصور
-
ٹاپ سٹوریز6 مہینے ago
اسحاق ڈار سے امریکی سفیر کی ملاقات، سکیورٹی اور اقتصادی تعاون سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال
-
تازہ ترین8 مہینے ago
پی سی بی نے انٹرنیشنل ٹیموں کے قیام کے لیے عمارت خرید لی